لندن میں نواز شریف سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملے۔ دوسری باتوں کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ میثاق جمہوریت حصہ دوئم لایا جائے۔ یعنی پہلے جس میثاق جمہوریت پر دستخط کئے گئے تھے، اس کے تشنہ نکات پر مزید کام کیا جائے۔
ایک مبارک خبر ہے۔ پہلا میثاق جمہوریت ہوا تھا تو اس کی پاداش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو درجنوں سیاسی کارکنوں سمیت شہید کر دیا گیا تھا جبکہ اس سے ذرا پہلے نواز شریف پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، جس میں پانچ یا چھ کارکن شہید ہو گئے تھے۔ بے نظیر کا سانحہ اتنا بڑا تھا کہ نواز شریف والی خبر اس میں دب کر رہ گئی۔
اگر اس وقت محترمہ کی شہادت کا سانحہ نہ ہوتا تو اس دن میاں نواز شریف والی خبر بڑی خبر تھی۔ مگر جیسے ہی میاں نواز شریف نے محترمہ پر حملے کی خبر سنی تو فورا اپنی انتخابی کمپین ختم کر دی اور فورا ہسپتال میں جا پہنچے تھے۔ ماضی میں سیاستدان بھی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے مگر اب واقعی ہی تبدیلی آگئی ہے۔ ایک سیاستدان کے گھر میں اگر ماتم ہو تو دوسرے کو فکر ہی نہیں ہوتی۔ ہاں آجکل یہی ماحول بنا ہوا ہے۔
سیاست میں تلخی آچکی ہے۔ اس کا خاتمہ میثاق جمہوریت میں ہی ہے۔ تاکہ جمہوری گاڑی بھی جلتی رہے اور آپسی تلخیاں بھی کم ہو جائیں۔
میثاق جمہوریت پارٹ ٹو پر بھی کوئی ایسی ہی سازش ہو گی؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ حالات بہت بدل گئے ہیں، جمہوریت کا پودا جڑیں پکڑ رہا ہے اور جہاں سے اسے خطرہ رہتا تھا، وہاں سے بھی تائید کے جھونکے آ رہے ہیں۔ وہ مصرعہ یاد آ رہا ہے جس کے ابتدائی الفاظ یوں ہیں کہ پاسباں مل گئے، لیکن چلئے چھوڑیے پورا مصرعہ لکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
نواز شریف کو جس اقامہ کیس میں زبردستی نااہل کر کے ریاست کی پوری طاقت استعمال کر کے ان کی حکومت ختم اور اس سرکار کو لایا گیا تھا، جسے بلاول نے "سلیکٹڈ" کا لازوال خطاب دیا تھا تو نواز شریف نے ایک مزاحمت کی تحریک شروع کی تھی۔ وہ تحریک اس طرح کامیاب رہی کہ اب جمہوریت کی ضرورت پر ہر طرف سے سند مل گئی ہے۔
"ہائبرڈ" تجربہ بہت خوفناک رہا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب اس طرح کے تجربات سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ اٹھا لیا گیا ہے۔ یہی اس تحریک مزاحمت کی کامیابی ہے۔ آج جمہوریت کا پودا پوری طرح خود مختار نہیں لیکن یہ خود مختاری بھی مل کر رہے گی۔ یہ نوشتہ تقدیر کے قلم نے وقت کی دیوار پر لکھ دیا ہے۔
٭ہائبرڈ تجربے میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا کہ 2023ء کا الیکشن بھی جیتا جائے گا اور الیکشن کے فوراً بعد صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے گا۔ یوں 1973ء کے آئین سے نجات حاصل کر لی جائے گی، جو بعض محبان وطن کے دلوں میں پہلے دن سے ہی کھٹک رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بھی منتر بود ہوا اور صدارتی نظام کا بار بار گاڑا اور اکھاڑا جانے والا مردہ ہمیشہ کے لئے بوری بند ہو گیا۔ بے شک ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔
٭جو کچھ حالیہ ہفتوں میں ہوا، اس کی روداد شاید پاکستانی سیاسی تاریخ کی سب سے دلچسپ کہانی ہے۔ اس کہانی کے اندر سے کئی کہانیاں بھی نکل رہی ہیں یعنی کہانی در کہانی۔ اور ہر کہانی میں انوکھے موڑ۔ ایک موڑ قاف لیگ کی کہانی میں بھی آیا۔ اس کے رکن قومی اسمبلی چودھری سالک حسین حکمران اتحاد کے ساتھ مل گئے اور وزیر بھی بن گئے۔
اس کہانی اور اس میں آنے والے موڑ سے اشرافیہ کے سدا بہار وزیر (اب خیر سے سابق) شیخ رشید کی یاد آ گئی۔ وہ لگ بھگ تین سال سے یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ ن لیگ میں سے ش لیگ نکلے گی۔ وہ تو نہیں نکلی، قاف لیگ میں سے "س" لیگ نکل آئی۔ خیر، شیخ صاحب کی دوسری پیش گوئیاں بھی اسی طرح کے انجام سے دوچار ہوئیں، مثلاً یہ کہ کشمیر میرے "سید" کے دور میں آزاد ہو گا۔
میرے سید سے مراد دلی کی نہر والی حویلی کے شیخ پرویز مشرف تھے۔ بعدازاں انہوں نے پیش گوئی کے الفاظ بدل ڈالے اور اسے یوں کر لیا کہ کشمیر میرے "خان" کے دور میں آزاد ہو گا۔ شیخ صاحب اب بھی کہ رہے ہیں کہ خان اسلام آباد میں ایسا اجتماع کریں گے کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس بات کو حکومت زیادہ سیریس مت لے۔ کیونکہ یہ بھی ماضی کی طرح کی ہی پیشین گوئی ہے۔
مہینہ پہلے انہوں نے ایک پیش گوئی صنعتِ تکرار (شاعری میں صنعتیں ہوتی ہیں تو ایک آدھ نثر میں بھی کیوں نہیں ہو سکتا) کے استعمال کے ساتھ یوں کی کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہے، ناکام ہے، ناکام ہے، الخ۔ پورے فقرے میں یہ تکرار دس بار کیا گیا اور پھر دو ہی ہفتوں بعد تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔
شیخ صاحب کی اور بھی پیش گوئیاں ہیں لیکن ان کا تذکرہ پھر سہی، فی الوقت سندھ کے وزیر خوابیات منظور وسان کی کچھ پیش گوئیاں نظر میں ہیں۔ وہ پیش گوئی کو اپنا خواب بتا کر پیش کرتے ہیں۔ کسی کی گرفتاری کا خواب ہے تو کسی کے فرار کا۔ دیکھیے کون سا خواب کس رنگ میں شرمندہ پیش گوئی ہوتا ہے۔ خوابوں کے سلسلے بہرحال اپنے اپنے ہیں لیکن جس طرح سے قبلہ پرویز الٰہی کا خواب ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرا ہے، اس کا تو جواب نہیں۔ چلیے اس کا تذکرہ بھی آج کل میں ہو ہی جائے!