Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Arzi Un Ki Shadmani Ha

Arzi Un Ki Shadmani Ha

نواز شریف کو عارضی رہائی مل گئی۔ شاید پے رول والی یا اس جیسی مسلم لیگ والے خوش ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب سے ملنے والی سزا معطل کر دی۔ اب دیکھیے۔ خوشی کتنے دن کی ہے۔ نیب نے سزا معطلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی سماعت پر کیا ہو گا۔ کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پھر دو ریفرنس زیر سماعت ہیں اور کسی بھی وقت فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔ رات کسی چینل پر ایک قانونی ماہر فرما رہے تھے کہ ان دونوں ریفرنسز میں کچھ بھی نہیں ہے۔ یعنی سزا نہیں ہو گی حالانکہ "نئے قانون" کے تحت سزا کے لیے کچھ ہونا کہاں ضروری ہے۔ جس ریفرنس میں سزا سنائی گئی۔ اس میں کیا تھا؟ سزا ہو گئی۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ کرپشن کا کوئی ثبوت تو ملا ہی نہیں اور جو سزا سنائی ہے، وہ بھی مفروضے پر یعنی اس بارے میں بھی ثبوت نہیں تھا کہ جائیداد کس کی ہے۔ مفروضہ یہ تھا کہ ہو نہ ہو، یہ نواز شریف ہی کی جائیداد ہے۔ یہ تو کہا گیا کہ جائیداد آمدنی سے زیادہ ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ آمدنی کتنی ہے اور جائیداد کی مالیت کتنی۔ یعنی یہ خیال کر لیا گیا کہ آمدنی کم ہے، اثاثے زیادہ۔ آخری مرحلہ اپیل کا فیصلہ ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ کہیں بھی کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اس لیے بریت ہو جائے گی۔ لیکن تب تک حالات کیا ہوں گے؟ اس سوال کا تعلق دونوں فریقوں سے ہے۔ کون جانتا ہے حالات کس کے حق میں کروٹ لیں۔ ویسے وزیر اطلاعات کا یہ کہنا بجائے خود ایک خبر ہے کہ نواز شریف کو پھر اڈیالہ پہنچا دیں گے۔ ٭٭٭٭٭یہ ریمارکس بھی سامنے آئے کہ پورے مقدمے میں نواز شریف تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہے۔ ان ریمارکس سے ایک اور بات ماضی قریب کی یاد آ گئی جس کا ان ریمارکس سے تعلق نہیں ہے۔ پانامہ لیکس جب آئی تو کسی کاغذ میں نواز شریف کا نام نہیں تھا، ہاں سینکڑوں نام اور تھے لیکن مقدمہ چلا تو اس پر جس کا نام ہی نہیں تھا، جن کے نام تھے وہ رائو انوار اور مشرف کی طرف مامون و مقدس ٹھہرے۔ نہ کسی نے پوچھا، نہ کوئی پوچھے گا۔ اور مقدمہ چلا یعنی جے آئی ٹی نے کئی ہفتے لگا کر طول شب فراق سے بھی کیسی رپورٹ بنائی تو اس میں بھی نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں تھا۔ کچھ ہوتا تو سزا اقامے پر نہ ہوتی۔ اقامے کی کہانی الگ اور سب کے سامنے ہے۔ ٭٭٭٭٭سزا معطلی سے ملنے والی خوشی بہرحال عارضی ہے لیکن اس کے اثرات عارضی نہیں ہیں۔ دھیرے دھیرے چھپی ہوئی باتیں کھل رہی تھیں، اب رجسٹر میں آ گئیں۔ نواز شریف کی "بے گناہی" قانوناً ابھی ثابت ہونا ہے لیکن عملاً انہوں نے یہ معرکہ جیت لیا ے۔ اس کی گواہی کئی "جانی دشمن" قسم کے لوگوں کے خیالات میں تبدیلی سے ملتی ہے۔ یعنی کم از کم اس معاملے میں کہا جا سکتا ہے کہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے یہ لوگ بہت نہیں، تھوڑے ہیں لیکن ہیں۔ ایک دانشور کا طنزیہ بہت پُرلطف تھا۔ فرمایا، نواز شریف کرپٹ ہوتے تو آج بھی وزیر اعظم ہوتے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کرپشن کرنے والے "تعاون" اور فرمانبرداری میں بہت اچھے ہوئے ہیں۔ چوں کرتے ہیں نہ چراں، بس تعمیل ارشاد کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے فرمایا ہے کہ عمران خاں جس طرح حکومت میں لائے گئے، سب کو پتہ ہے۔ اسے ہم ایک طرف رکھتے ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ آپ جس طرح بھی جتوائے گئے اب کچھ کر کے دکھائیں۔ ایک طرف رکھنے والی بات اتنی پتے کی نہیں لگتی۔ ایک طرف کیوں رکھیں؟ اگرچہ سب کو پتہ ہے کہ کس طرح جتوائے گئے لیکن سراج الحق صاحب اپنی زبان مبارک سے اس پر دو سطریں جاری کر دیتے تو تاریخ میں درج ہو جاتا کہ جماعت اسلامی نے "گواہی" کا فریضہ ادا کر دیا تھا۔ گواہی رجسٹر ہو جاتی تو اچھا تھا۔ خیر، جو کہا ہے، وہ بھی ایک طرح سے "شہادت خفی" ہے۔ اور ابھی کچھ کر دکھانے کی بات تو کیا انہوں نے کچھ کر کے دکھا یانہیں دیا۔ انہوں نے تو اتنے کم دنوں میں اتنا کچھ کر کے دکھا دیا کہ اپنے پرائے سبھی "معترف" ہو گئے۔ شاید سراج الحق صاحب یہ کہنا چاہتے ہوں کہ مزید کچھ کر کے دکھائیں۔ ضرور یقینا وہ بہت کچھ مزید کر کے دکھانے والے ہیں اور بہت جلدی۔ ٭٭٭٭٭مزید کچھ کر کے دکھانے کو کئی میدان ہیں۔ سنا ہے این ایف سی ایوارڈ میں کچھ ضروری فیصلے کرنے کا طے ہوا ہے۔ مثلاً وفاقی محاصل بڑھانے کا اور اس کے لیے صوبوں کا حصہ کم کیا جائے گا۔ جتنی مہنگائی ان ہفتوں میں ہوئی ہے، اس کی "خوشی" اپنی جگہ۔ صوبوں کے فنڈ کم کرنے سے یہ خوشی جس طرح دوبالا ہو گی۔ اس کی کیفیت عوام ہی بتا سکیں گے جن پر یہ خوشی گزرے گی۔ وفاق کو زیادہ حصہ ملنے سے "ریاست" کی بہت ضروری قسم کی ضروریات پوری ہونے میں مدد ملے گی۔ عوام ایک غیر ضروری شے ہیں، یہ انتخابات میں ثابت ہو چکا۔ متوقع فیصلے سے ان کا غیر ضروری شے ہونا مزید ثابت ہو جائیگا۔ ترقیاتی اخراجات پہلے ہی کم کر دیے گئے ہیں اور خاں صاحب کی ترجیحات دوبارہ ترقی کی روشنی میں ہو سکتا ہے سرے سے ختم ہو جائیں۔ خاں صاحب فرما چکے ہیں، ترقی ترقیاتی کاموں سے نہیں ہوتی۔ ٭٭٭٭٭کر کے دکھانے والی فہرست میں صدارتی نظام کی جانب پیشرفت بھی ہے۔ تحریک کے ایک رہنما فیصل واڈیا نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایک آدھ ضروری شق کے سوا اٹھارہویں ترمیم سرے سے ختم کر دی جائے۔ ایک آدھ ضروری شق کون سی ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ ساری ترمیم کا مقصد اختیارات کی تقسیم ہے، اسی کو ختم کرنا دیرینہ ہدف ہے۔ پھر یہ ارتکاز فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح صدر کو منتقل ہو جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دلکش خواب کی تعبیر پانے کی راہیں بہت کٹھن ہیں، اس میں دو چار بہت سخت مقامات آتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭برطانوی اخبار گارجین ایک سنجیدہ اخبار سمجھا جاتا ہے لیکن اس نے نئی پاکستانی حکومت کو باعتبار معنے، یو ٹرن کی حکومت قرار دے دیا اور کئی اقدامات و اعلان کے حوالے مذکور کر کے لکھا کہ یہ سب واپس لے لئے گئے۔ اتنے سنجیدہ اور معتبر اخبار کو کیا ہوا؟ شاید مولانا فضل الرحمن سے متاثر ہو گیا۔ حالانکہ کیا قباحت تھی اگر فواد چودھری سے متاثر ہو جاتا کہ جن کا فرمایا ہوا اگلے ہی روز "مستند" ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭دو رات پہلے ایک معتبر تجزیہ نگار فرما رہے تھے کہ نواز شریف کی (عارضی) رہائی سے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے فرمایا کہ سعد رفیق تو جیت ہی جائیں گے۔ کیسے جیت جائیں گے؟ شیخ رشید کا قول رشید یاد کریں۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ "ہم پولنگ سٹیشن کے اندر بھی ہوں گے اور باہر بھی" یہ قول یاد کریں اور اب بتائیں کہ کیسے جیت جائیں گے۔ سعد رفیق تو اصل الیکشن بھی جیت گئے تھے۔ اس کا علم سب سے زیادہ خاں صاحب کو ہے۔ ورنہ وہ دوبارہ گنتی کیوں رکواتے؟ وہ بھی تب جب دوبارہ گنتی کا عمل جاری تھا اور مکمل ہونے کو تھا۔ ٭٭٭٭٭قبلہ طاہر القادری نے فرمایا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں مقتولین کو انصاف دینا حکومت عمرانی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بجا فرمایا۔ بے گناہ مقتولین کو انصاف ملنا ہی چاہیے اور پھر یہ خاں صاحب کا وعدہ بھی تو ہے۔ فرمایا تھا، حکومت میں آ کر جو کام سب سے پہلے کروں گا، یہی ہو گا(ویسے وہ ڈیڑھ درجن کاموں کے بارے میں یہی فرما چکے ہیں کہ سب سے پہلا کام یہی ہو گا)لیکن قبلہ تسلی رکھیں۔ خاں صاحب یہ کام کبھی نہیں کریں گے۔ اس میں کچھ "بے پردہ نشینوں " کے بھی نام آتے ہیں۔ کچھ باتیں دبی ہی رہنی چاہیں۔ اوپر آ جائیں تو بہت سے نیکو کار مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ بس دیکھتے رہیے گا۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran