Ayub Khan, Thori Si Tehdees Nemat
Abdullah Tariq Sohail92 News844
غالباً یہ 1974ء کا سال تھا جب ایوب خاں پرلوک سدھارے۔ گویا نصف صدی(تقریباً) ہونے کو آئی اور تب سے اب تک کسی کو ان کی یاد آئی نہ ان کے محاسن کی لیکن اب یک لخت آسمان نے ایسا رنگ بدلا کہ ان کی وہ خوبیاں جو ایک سربستہ راز تھیں۔ عیاں ہونے لگی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر کم از کم دو پروگرام ان کی مدح میں ہو چکے اور سوشل میڈیا پر بھی تین یا چار صادق و امین حضرات نے موصوف کی کردار افروزی کی سعی فرمائی ہے۔ ان پانچوں چھٹیوں صدقاً و امناً کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے لہٰذا سچ بات یہ ہے کہ نصف صدی کے بعد اگر یہ نیک کام ہوا ہے تو اس کا سہرا بھی پی ٹی آئی کو جاتا ہے۔ ایوب خاں کی مدح سرائی پر خدانخواستہ، خاکم بدھن کسی تنقید کا ارادہ نہیں لیکن اس مہم جوئی سے ایک غلط فہمی نے جنم لیا ہے۔ جس کا ازالہ ضروری ہے۔ غلط فہمی کی بنیاد پر تاثر ہے کہ جیسے ایوب خاں اس ملک کے پہلے اسلامی صدر تھے یعنی وہ پہلے موصوف تھے جنہوں نے ملک میں اسلامی صدارتی نظام کی بنیاد رکھی۔ ریکارڈ کے مطابق یہ صحیح نہیں ہے۔ ملک کے پہلے اسلامی صدر غلام محمد تھے جن کے اوصاف حمیدہ ہماری جگماتی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ہر چند ان کا عہدہ گورنر جنرل کا تھا لیکن عملاً وہ صدر ہی تھے اور ہر چند کہ ان کے دور میں پارلیمانی نظام تھا لیکن وہ مفلوج تھا۔ خود غلام محمد جسمانی طور پر مفلوج تھے۔ ذرا اس پارلیمانی نظام کی مفلوجیت کا اندازہ لگائیے جس پر ایک مفلوج نے فالج گرا دیا ہو۔ اس طرح پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کا آغاز 1951ء میں ہوا نہ کہ 1958ء میں۔ ان کے بعد دوسرے اسلامی صدر سکندر مرزا آئے۔ دونوں کے اسلامی صدارتی نظام قدرے خام تھے کہ تجرباتی مراحل پر تھے۔ خام کے بعد تام کی باری آئی اور تیسرا اسلامی صدارتی نظام مرد کامل ایوب خاں نے برپا کیا۔ چوتھا اسلامی صدارتی نظام ایک اور مرد کامل ضیاء الحق نے نافذ کیا۔ ان سے پہلے یحییٰ خاں نام کے ایک صاحب بھی اسلامی صدر تھے لیکن چونکہ وہ مرد کامل ایوب خاں ہی کا ضمیمہ تھے(جنہوں نے دسمبر 1971ء میں ایوب خاں کا نامکمل مشن پورا کیا) اس لئے وہ گنتی میں شامل نہیں۔ ضمیمہ جاتی دور تین سال رہا جس کے بعد پانچ برس کے لئے پارلیمانی جمہوریت آئی۔ گویا چوتھا اسلامی صدارتی نظام اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس نے 71میں اسلامی صدارتی نظام کے انقطاع کو ختم کیا اور ٹوٹا ہوا سلسلہ الذھب پھر سے بحال کیا۔ پانچویں اسلامی صدر غلام اسحاق خاں تھے جو مرد کامل ضیاء الحق کے بستی لال کمال میں ارج کمال کی طرف اچانک روانگی کے باعث مسندنشین ہوئے، چھٹے فاروق لغاری تھے۔ اسی دوران آٹھ دس سال کا ایک اور ناہنجار اور نامطلوب پارلیمانی وقفہ آیا۔ اگرچہ یہ پارلیمانی نظام ویسے ہی مفلوج تھا جسے غلام محمد کے دور میں تھا لیکن تھا تو پارلیمانی جس سے ہر محب وطن سوھان روح کا شکار تھا۔ یہ سوھان روح ساتویں اسلامی صدر، مرد ازحد کامل پرویز مشرف نے دور کیا۔ یہ بابرکت دور آٹھ برس رہا جس کے بعد پھر ناہنجار اور نامطلوب پارلیمانی دور واپس آ گیا جو دس سال رہا یہ دس سال ہر محب وطن نے کس دکھی دل سے گزارے، یہ ان کا دکھی دل ہی جانتا ہے۔ خدا خدا کر کے 2018ء میں فرشتے قطار اندر قطار گردوں سے اترے اور اس پارلیمانی نظام کی جگہ ایسا نظام نافذ کیا جو نام کی حد تک پارلیمانی دراصل اسلامی صدارتی کی تمہید ہے۔ ٭٭٭٭٭ہاتف غیبی کے اشارے پر اسلامی صدارتی نظام ایوب خاں کے حق میں مہم شروع ہے جس میں حصہ لینا ہر محب وطن پر فرض ہے چنانچہ یہ چند مدحیہ سطریں بھی اسی تقاضائے حب الوطنی کے تحت رقم کی جا رہی ہیں، تحدیث نعمت کے طور پر۔ ایوب خاں کی چشم بینا پلک جھپکتے میں معلوم کر لیتی تھی کہ کون محب وطن ہے، کون غدار۔ انہوں نے فاطمہ جناح کی صورت میں ایک بہت بڑی بھارتی ایجنٹ کا سراغ لگایا۔ فاطمہ جناح کے حق میں مولانا مودودی نے بیان دیا تو ایوب خاں کو پتہ چل گیا کہ یہ مولانا بھی بھارت ہی کے ایجنٹ ہیں۔ چنانچہ فطری بات ہے کہ ایک بھارتی ایجنٹ دوسرے بھارتی ایجنٹ کا ساتھ دے۔ چنانچہ مولانا مودودی نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور یہ "بدنام زمانہ" فقرہ کہا کہ ایوب خاں میں مرد ہونے کے سوا کوئی خوبی نہیں اور فاطمہ جناح میں عورت ہونے کے سوا کوئی خامی نہیں۔ بعدازاں ایوب خاں نے ان دونوں بھارتی ایجنٹوں کا خوب مکّو ٹھپا۔ فاطمہ جناح نے ایوب خاں کا صدارتی الیکشن میں مقابلہ کیا اور ایک بہت بڑی بدقسمتی ہوتے ہوئے رہ گئی۔ جاہل اور احمق قوم، جو بریانی کی پلیٹ پر بک جاتی ہے، فاطمہ جناح کو ووٹ دے بیٹھی لیکن جادوائی آسمان کا شکریہ کہ گردوں سے صفیں اتریں اور تاریکی نیم شب کے بطن سے ایوب خان کی فتح کا سورج برآمد کر لیا۔ یوں بلا ٹلی۔ ایوب خان شدید قسم کے ایماندار بھی تھے۔ بھارت کو تین دریا 9ارب روپے میں بیچے اور یہ رقم پوری ایمانداری سے گندھارا کی کیاری میں لگا دی جو دیکھتے ہی دیکھتے باغ و بہار ہو گئی۔ ایوب خاں جاودانی آسمان کے فرزند تھے اور اس الوھی عقیدے پر سختی سے کاربند تھے کہ جاودانی آسمان کی نعمتوں کے حقدار صرف برگزیدہ اور منتخب بندے ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے تمام ملکی دولت 22نیک اور منتخب گھرانوں کو منتقل کر دی۔ گرین ریولوشن (زرعی انقلاب) کے تحت انہوں نے جاودان محبوب بندوں یعنی جاگیرداروں کی کمزور پڑتی طاقت کو پھر سے ناقابل تسخیر بنایا اور مردود ہاریوں کو مردود تر بنایا۔ آپ نے آزاد کشمیر کا ٹکڑا چین کو، بلوچستان کا ایک رقبہ ایران کو تحفے میں دیا اور بدلے میں شکریے کا گراں قدر لفظ وصول کیا۔ خداوند امریکہ کی اطاعت کا قلاوہ ملک کے گلے میں ڈالا۔ ضمناً عرض ہے کہ وطن عزیز میں اسلامی صدارتی نظام 51ء سے 71ء تک 20سال، 77ء سے 88ء تک 11سال، 1999ء سے 2007ء تک آٹھ سال تک رہا، ملا کر 39سال۔ غلام اسحاق اور لغاری کے 9سال ملا لیں تو یہ 48سال بن جاتے ہیں۔