قارئین سنا تو یہی تھا کہ جب کسی شے کی خریداری کم ہو جائے تو اس کی قیمت بھی کم ہو جایا کرتی ہے لیکن اب کہ ہم کچھ اور دیکھ رہے ہیں۔ بجلی کی خریداری کم ہو گئی لیکن قیمت بڑھ گئی اور اتنی بڑھ گئی کہ فیول چارج ملا کر یونٹ اتنے روپے کا ہو گیا کہ پطاس کے نوٹ ہاتھ سے چھنتا لگتا ہے۔ خریداری اس لئے کم ہوئی کہ دور بابرکت کا ورود ہوتے ہی کارخانے دھڑا دھڑ بند ہونے لگے، نئے کارخانے لگے نہیں اور بجلی "سرپلس" ہونے لگی اور پھر سرپلس ہوتی ہی گئی۔ لیکن بجلی ہے کہ مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ سنا ہے کہ سوروپے یونٹ ہونے تک یہ مہنگی ہوتی ہی رہے گی۔ تب تک گھر کا بجٹ سنبھالنے کی طاقت بحال رکھنے کی سر توڑ کوشش جاری رہے تاکہ فی یونٹ اخراجات کا بوجھ ہمیں سسکتی زندگی کا تجربہ دے سکے۔
خیر، اسے چھوڑیے اور یہ سنئے کہ وزیر اعظم نے سابق حکومت کے ایک منصوبے کا افتتاح کر دیا۔ اب تک خدا جھوٹ نہ بلوائے، ڈیڑھ درجن ایسے منصوبوں کا وہ افتتاح کر چکے ہیں جن کا افتتاح ماضی کی حکومت نے کیا تھا اور ایک ضمنی سچ یہ ہے کہ بعض سابق منصوبوں کا وزیر اعظم نے دو دو بار افتتاح کیا۔ ایسے افتتاح کریں گے تو اپوزیشن کو مذاق اڑانے اور عوام کو انگلی اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ انہیں یہ موقع نہیں دیا جانا چاہیے اور اس کا ایک دوسرا طریقہ بھی موجود ہے۔ وزیر اعظم کا شوق بھی پورا ہوتا رہے گا اور اپوزیشن طعنہ زنی بھی نہیں کر سکے گی اور وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم افتتاح نہ کریں، تجدید افتتاح کریں یعنی بر وزن تجدید نکاح۔ اسے افتتاح ثانی کہنا ٹھیک نہیں۔
٭تجدید نکاح ہمارے معاشرے میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ علمائے کرام جب ضروری سمجھتے ہیں، اپنے کسی معتقد کی کسی بات پر ناراض ہو کر اعلان کر دیتے ہیں کہ تمہارا نکاح ٹوٹ گیا۔ بے چارے کے پاس۔ پرانی منکوحہ سے نیا عقد کرن کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ کچھ مہینے یا سال بھر پہلے بھارت سے دلچسپ خبر آئی تھی۔ وہاں ایک گائوں میں دو فرقوں کے مسلمان برابر برابر آباد تھے۔ ایک سماجی کارکن کی وفات ہو گئی وہ اتنا مقبول تھا کہ مخالف فرقے والوں نے بھی جنازے میں شرکت کی۔ اس فرقے کے مولوی صاحب نے سب کے نکاح منسوخ کر ڈالے۔ چنانچہ "تجدید نکاح" کا اجتماعی میلہ لگا جسے دیکھنے ہندو عوام بھی بھر پور"عقیدت و احترام" کے ساتھ حاضر ہوئے۔
٭خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگتی ہے، تحریک انصاف میں ایک خوف در آیا ہے، ڈرنے کی اب کیا ضرورت، اب تو انتخابات سر پر ہیں، کتنے نیک لوگ تھے جو سمجھایا کرتے کہ میاں انصاف اور انتقام کا ترازو الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ایک ہی کنڈا نصب کر دیا۔ اب خریدار ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ نئی تنظیم کا اعلان فرما دیا۔ پرانے کہاں جائیں گے یہ نہ بتایا۔ کیا نئے اور پرانے اپنے ترازو الگ الگ کر کے بیٹھ جائیں گے؟ صا حب ایک منڈی لگ جائے گی، اپنی اپنی بولیاں ہوں گی، اس بھیڑ میں وہ سادہ لوح کھو سکتے ہیں جن مال اصلی ہونے کی یقین دہانی پر اس کوچہ میں سر کے بل گئے تھے۔
٭تجدید نکاح کو اعادہ نکاح بھی کہا جا سکتا ہے۔ یوں عمران خاں بھی "اعادہ افتتاح" کی ترکیب سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن اس میں ایک شائبہ خرابی کا یہ ہے کہ دھیان اعادہ شباب کی طرف چلاجاتا ہے۔ بہت برس بیتے، ایک بزرگ کو اکثر"املوک" کھاتے دیکھا، پوچھا، حضرت کیا یہ بہت ہی مفید صحت پھل ہے یا کسی عارضے کا علاج۔ فرمایا، اعادہ شباب کے لئے لاجواب ہے۔ پوچھا کتنے عرصے میں اعادہ شباب ہو جاتا ہے۔ بولے بس یہی چند ہفتے۔
عرض کیا، آپ کو دو مہینے سے املوک کھاتے دیکھ رہا ہوں، آپ پر تو شباب آیا نہیں، ہاں آپ کے بڑھاپے پر شباب آتا نظر آ رہا ہے۔ یہ سن کر وہ ناراض ہو گئے۔ حضرت ملاّ راحوی بہت صاحب دل، صوفی بزرگ اور بے مثال ادیب تھے۔ حکیم بھی تھے اور ایک زمانے میں کشتہ گندم بناتے تھے جسے لوگ اعادہ شباب کے لئے استعمال کرتے تھے۔ کئی حکیموں سے اس کشتے کی ترکیب کا پوچھا، سب لاعلم نکلے۔ ایک صاحب نے کہا، میرے دادا حضور بڑے حکیم صاحب تھے، ان کی صدری بیاض میں ہے:چائے کے ساتھ سموسہ کھلائو تو بتائوں۔
فرمائش پوری کی تو کہا، روٹی توے پر جل جائے تو اسے پھر جلائو، پھر پیس لو، یہی کشتہ گندم ہے۔ سن کر دلی مسرت ہوئی، پوچھا اس کا بدرقہ کیا ہے(اصل دوا کے ساتھ ضمنی دوا جو اصل دوا کا فائدہ بڑھاتی اور مضرت کم کرتی ہے، بدرقہ کہلاتی ہے) بولے، ایک بڑا چمچ ہاضمے کا چورن۔ بات بدرقے کی طرف نکل گئی تو وضاحت ضروری ہے۔ کشتہ خبث الحدید کا بدرقہ مکھن ہے۔ مکھن میں لپیٹ کر کھلایا جاتا ہے۔ آلو گوبھی کا بدرقہ ہینگ اور ادرک ہے۔ اس کے بنا کھائیں گے تو بادی جھپٹ لے گی۔
نصیبو لال اور عیسیٰ خیلوی کے "سماع" کے لئے روئی (کاٹن) کا بدرقہ ضروری ہے، دیسی کپاس کی مصفا روئی۔ کھانے کے لئے نہیں، کان میں ٹھونسنے کے لئے۔ کالم ختم۔ دیکھئے، وزیر اعظم رسم افتتاح جاری رکھتے ہیں یا تجدید و اعادہ افتتاح کی طرف آتے ہیں۔ ہماری تجویز ان کی افتتاحی مہمات کا بدرقہ سمجھیے۔