Bangla Desh Ka Halaat
Abdullah Tariq Sohail92 News694
بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے 300 میں سے 288 سیٹیں جیت لیں۔ یہ حسینہ واجد کی دریا دلی ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کو 12 سیٹیں جیتنے دیں، نہ دیتیں تو اپوزیشن کیا کرلیتی۔ لیکن حسینہ واجد کا ذہن جمہوری ہے۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے جس میں اپوزیشن کا وجود ہی نہ ہو۔ انتخابات کے روز 17 اپوزیشن کارکن مارے گئے۔ بنگلہ دیش کے حساب سے یہ کوئی خاص گنتی نہیں ہے۔ حسینہ واجد نے دھاندلی بھی خوب دریا دلی سے کی۔ نہ کرتیں تو بھی اکثریت سے جیت جاتیں لیکن وہ سادہ اکثریت ہوتی یا سادہ سے کچھ زیادہ اکثریت کے ساتھ۔ لیکن اتنی زیادہ اکثریت جس میں اپوزیشن کو آٹے میں نمک سے بھی کم سیٹیں ملیں، ووٹروں سے زیادہ ان کی قوت بازو نے دلائی۔ ایک ملک گیر کریک ڈائون جو پچھلے پانچ برس سے جاری ہے اور جس میں دسیوں ہزار مخالف کارکن جیلوں میں بند کئے گئے، سبھی اسی قوت بازو کا حصہ ہے۔ اپوزیشن کی قیادت پوری کی پوری گرفتار ہے۔ اپوزیشن میں دو ہی جماعتیں ہیں۔ بی این پی اور ڈاکٹر کمال حسین کی جماعت۔ ایک موثر اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی عملاً کالعدم ہے۔ الیکشن میں اس کے حصہ لینے پر پابندی ہے، اس کی مرکزی قیادت کم و بیش ساری کی ساری پھانسی دے کر شہید کر دی گئی ہے۔ اس کے بارہ امیدواروں نے بی این پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ عوامی لیگ نے کامیاب تو بہرحال ہونا تھا جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ دیہی اور قصباتی علاقوں میں مقبول ترین جماعت ہے۔ فاشسٹ طرز حکومت پر دیہاتی عوام کو کچھ خاص اعتراض نہیں۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ عوامی لیگ نے ان کی غربت کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ شہری علاقوں میں ان کی ظالمانہ آمریت کو پسند نہیں کیا جاتا۔ حالیہ الیکشن میں عوامی لیگ نے بی این پی پر ایک بہتان یہ بھی لگایا کہ پاکستان نے اس کی مالی مدد کی ہے۔ بنگلہ دیش جس کے عوام 1971ء کی یادوں سے ابھی تک نہیں نکل سکے۔ اس الزام سے بھی متاثر ہوئے اور عوامی لیگ کے ووٹ کچھ اور بڑھ گئے۔ دوسری طرف اپوزیشن قیادت سے محروم تھی۔ ساری قیادت جیلوں میں بندہے، پہلی ہی نہیں، دوسری صف کی قیادت بھی۔ اس کے حوصلے کمزور تھے، پھر عوامی لیگ نے منصوبہ بند ہوکر بہت سے پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کرلیا۔ بہت سے واقعات میں بیلٹ بکس پولنگ سے پہلے ہی بھرے ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ شامت جماعت اسلامی کی آئی ہوئی ہے۔ اس کے کئی لیڈر 1971ء کے جنگی جرائم کے الزام میں پھانسی پا چکے اور اسے ملک گیر سطح پر ملک سے "غداری" کے الزام کا سامنا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ستم ظریفی ہے کہ البدر اور الشمس جس پر بنگالیوں کے قتل عام کا الزام ہے، جماعت اسلامی کی کمان میں ضرور تھیں لیکن ان کے کارکنوں کی بھاری اکثریت کا کوئی ذہنی یا نظریاتی تعلق جماعت سے نہیں تھا۔ عوامی لیگ نے 1971ء کا فوجی آپریشن ہونے سے قبل اردو بولنے والے بہاریوں کا قتل عام کیا تھا۔ کم سے کم ایک ڈیڑھ لاکھ بے گناہ افراد چھرے بازوں نے ذبح کئے۔ پھر کئی نوجوان البدر اور الشمس میں شامل کئے گئے تھے اور پھر یہ تنظیمیں جماعت اسلامی کے سرمنڈھودی گئیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی درس قرآن کی محفل کر رہی ہو تو بھی چھاپہ پڑ جاتا ہے اور خبر چھپ جاتی ہے کہ خفیہ سازشی اجلاس میں پاکستان کے ایجنٹ بھی موجود تھے۔ شہروں میں بے چینی ہے، خاص طور سے طلبہ اور وکیلوں میں لیکن فی الحال کسی منظم ایجی ٹیشن کا امکان کم ہے کیونکہ اپوزیشن بے قیادت بھی ہے اور کم حوصلہ بھی، اوپر سے اس پر پاکستان سے ساز باز کا "مہلک اور موثر" الزام عائد ہے۔ لیکن یہ بے چینی ازخود بھی بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اپوزیشن کے کارکن اور حامی بہت زیادہ مشتعل ہیں اور اشتعال کی چنگاری بھڑک بھی سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭قاف لیگ کے ایک لیڈر نے بہاولپور صوبہ بنانے کا مطالبہ دہرایا ہے اور دھمکی دی ہے کہ بہاولپور کو الگ صوبہ نہ بنایا گیا تو پھر کوئی بھی دوسرا صوبہ (بشمول جنوبی پنجاب) بھی نہیں بن سکے گا۔ دھمکی باز موصوف کو شاید علم ہی نہیں کہ اوپر کی سطح پر ایک بہت ہی انوکھا یوٹرن لیا جا چکا ہے۔ ایسا یوٹرن کہ اسے یوٹرن پلس کہا جا سکتا ہے اور اب بات نئے صوبے کے بجائے سچ مچ ون یونٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دو روز ہوئے، ایک واقف کار رپورٹر صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے ایک "محب وطن" کالم نگار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بہت جلد میڈیا پر صدارتی نظام اور ون یونٹ کے حق میں مہم شروع ہونے والی ہے۔ محب وطن لکھاریوں اور گفتاریوں کو "اذن" دیا گیا ہے۔ شروع شروع میں سر دھیمے رہیں گے، پھر اونچے سروں میں صدارتی راگ گایا جائے گا۔ ان کی بات کی تصدیق تیسرے دن ہو گئی۔ دو کالم صدارتی نظام کے حق میں آگے پیچھے آ گئے۔ خیر، اسے آپ حسن اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں۔ کون کس وقت سچائی کو پا لے اور یہ راز سمجھ جائے کہ اب تک وہ جسے سچ سمجھتا رہا تھا، وہ تو جھوٹ تھا، اس کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں۔ یہی اب بھی ہورہا ہے۔ وہی بالاعقل اور بالادست حضرات جو پنجاب کے حصے بخرے کرنے ہی کو انصاف سمجھتے تھے، اب اس سچائی پر پہنچے ہیں کہ ملک کو ون یونٹ کی ضرورت ہے۔ بہرحال، رخش حب الوطنی رد میں ہے، کس منزل پر کب پہنچے، کون جان سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ون یونٹ نئے صوبے پر بحث اپنی جگہ لیکن نئے صوبوں کے حامیوں سے گزارش ہے کہ وہ ہزار دلیلیں اپنے موقف میں لائیں، بڑی خوشی سے لائیں لیکن آبادی زیادہ ہونے کی دلیل نہ دیں۔ ہمارے علاقے یعنی برصغیر میں دو صوبے پنجاب سے کم و بیش دوگنے بڑے ہیں اور کامیابی سے چل رہے ہیں ا ور سات صوبے اکیلے ہیں جو پنجاب کے برابر یا کچھ ہی کم آبادی رکھتے ہیں۔ ایک تو بھارتی صوبہ یوپی ہے جن کی آبادی بائیں کروڑ سے بھی زیادہ ہے اور دوسرا بنگلہ دیش جس کی آبادی سترہ کروڑ ہے۔ آپ چونک گئے؟ اس بات پر کہ بنگلہ دیش کو ملک کے بجائے صوبہ کیوں کہا تو عرض ہے کہ بنگلہ دیش ایسا ملک ہے، خود ہی ملک بھی ہے اور خود ہی صوبہ بھی۔ یعنی کوئی صوبہ ہے ہی نہیں، ہاں آٹھ ڈویژن ہیں، اتنے ہی جتنے اس سے آدھی آبادی والے ہمارے پنجاب میں اور نظم و نسق میں وہاں کوئی خرابی ہے تو ہم سے کم ہی ہے۔ القصہ زیادہ آبادی کی دلیل بے وژن، بے معنی اور سخت نامعقول ہے۔