مری میں بہت دردناک سانحہ ہوا۔ برفباری میں لوگ پھنس گئے۔ 23مارے گئے۔ جان کنی کے لمحات 18گھنٹے تک پھیل گئے اور موت کا انتظار 48گھنٹے تک اور ایسا پہلی بار ہوا کہ حکومت کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ نظر آئی لیکن اگلے روز۔ دو وفاقی وزیروں نے زبردست پریس کانفرنس کی یہ بتانے کے لئے کہ مریم باجی (مریم نواز) کی آج چھٹی ہے اور اپوزیشن کا لونگ گواچ گیا ہے۔ جگتوں، طعنوں، مسکراہٹوں اور قہقہوں سے لبریز اس تفریحی پریس کانفرنس نے غم زدہ قوم کا غم غلط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسے کہتے ہیں وژن اور یہ ہوتی ہے قیادت۔
٭ٹریفک جام کی کیفیت 48گھنٹے رہی اور گاڑیاں برف میں پھنس جانے کی قیامت چوبیس گھنٹے۔ پھنسے ہوئے، ڈرے سہمے، پریشان اور تکلیف میں مبتلا لوگ فون پر ہر جگہ رابطے کرتے رہے، کہیں سے کوئی مدد نہیں آئی۔ ہاں 45منٹ کی دوری سے بانسری بجانے کی مدھر آواز دل کو لبھاتی رہی۔ حیرت فزا یہ ماجرا بھی رہا کہ برف ہٹانے والی گاڑیاں جو ماضی کے تمام ادوار میں سیزن شروع ہونے سے پہلے ہی مری سے گلیات تک کی سڑکوں کے اطراف اور چوکوں پر پہنچ جاتی تھیں، وہ پراسرار طور پر غائب تھیں۔ افواہ ہے کہ کہیں اور "وی آئی پی"ڈیوٹی پر لگا دی گئی تھیں۔
وہ نمک جو اس سیزن میں متعلقہ مقامات پر پہنچا دیا جاتا تھا تاکہ برف پگھلانے کے لئے ڈالا جا سکے، اس بار خریدا ہی نہیں گیا۔ کیوں؟ شاید بچت اور سادگی کی مہم چل رہی تھی۔ رات بھر لوگ فریاد کرتے رہے اور جواب میں ہر طرف سے ہر طرح کی برف ان پر گرتی رہی۔ اس برف نے ان کی گاڑیوں کو ڈھک لیا اور اندر سرد مہر موت جھیل گئی۔ ٹریفک جام کی خبریں کئی دن سے آ رہی تھیں لیکن اضافی ٹریفک اہلکار اور ریزرو دستے جو ماضی میں ہر سال یہاں پہلے ہی پہنچا دیے گئے تھے، مشینری کی طرح غائب تھے۔ کسی نے ان کی ڈیوٹی لگائی ہی نہیں تھی۔
٭محکمہ موسمیات نے 31 دسمبر کو آفت کی پیش گوئی کردی تھی اور بعدازاں تباہی والی قومی اتھارٹی(این ڈی ایم اے) نے بھی بتا دیا تھا لیکن جواب میں برفانی خاموشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بعض وزیر یہ بیانات مسلسل دیتے رہے کہ مری میں اس وقت ایک لاکھ گاڑیاں موجود ہیں جو خوشحالی کی علامت ہیں کوئی نہیں جانتا کہ یہ ایک لاکھ کی تعداد بار بار جتلانے کی کوشش کیوں کی جاتی رہی اس لئے کہ سرکاری اعداد و شمار (محکمہ جاتی) کے مطابق مری میں گاڑیوں کی کل تعداد 33ہزار سے کچھ زیادہ تھی، اس سے زیادہ نہیں یعنی 34ہزار سے بھی کم۔ اس تعداد میں دو تہائی اضافے کے پیچھے کیا منتر تھا۔ اور اتنی تعداد لگ بھگ ہر سال ہوتی ہے۔
ٹریفک ہر سال جام ہوتی ہے اور کھول دی جاتی ہے۔ برفباری بھی ہر سال ہوتی ہے اور کبھی کبھی شدید بھی، اتنی ہی شدید جتنی کہ اس بار ہوئی۔ ایسی شدید برفباری پہلی بار نہیں ہوئی۔ ماضی میں ان گنت بار ہو چکی ہے۔ لیکن اس بار جو کچھ ہوا، وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ حکمران اپنے طرح طرح کے اجلاس کرتے رہے۔ کسی میں تنظیم سازی کے امور زیر غور تھے تو کسی میں شرکا کو ہدایت کی جارہی تھی کہ وہ اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دیں اور عوام کو بتائیں کہ ملک میں مہنگائی کا کوئی وجود نہیں ہے، سب اپوزیشن کا پروپیگنڈہ ہے اور پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے اور نواز شریف نے ایک ہزار ارب کی چوری کی ہے اور شہباز شریف دراصل شوباز شریف ہے۔
٭شوباز شریف شوبازیاں کیا کرتا تھا لیکن وہ لمبے بوٹ پہن کر جب شو بازی کرتا تھا تو موقع پر "حاضر" افسر پانی نکالنے اور برف ہٹانے میں مصروف ہو جاتے تھے۔ آئی آفت ٹل جاتی تھی۔ اس حکومت میں کوئی شوباز شوبازی کے لئے باہر نہیں آیا چنانچہ موقع پر حاضر ہونے والے افسر بھی غیر حاضر تھے بلکہ جن کو روٹین میں حاضر ہونا چاہیے تھا، وہ بھی غائب تھے۔ شو بازوں کا دور ختم ہوا، آئی آفت کے ٹلنے کا زمانہ بھی گزر گیا۔ آفت آئی۔ تباہی مچا کر چلی گئی۔ حکومت عوامی ردعمل کا غل مچا تو حکومت حرکت میں آئی، لونگ گواچا کی اطلاع دی اور ایمرجنسی نافذ کر دی۔ قصور کس کا ہے۔ وہ بھی حکومت نے بتا دیا۔ قصور مرنے والوں کا ہے جو موسم کی سختی کی پروا کئے بغیر موج مستی منانے پر تل گئے تھے اور تلے گئے۔
حکومت کے اس تاریخی ٹویٹ کی آنے والے مورخ ہی صحیح داد دے سکیں گے۔ اسے شیخ رشید کے اس تاریخی بیان کی بازگشت سمجھئے جو انہوں نے ٹرین حادثے میں سینکڑوں لوگوں کے زندہ جل جانے پر دیا تھا کہ کم بختوں نے ٹرین میں گیس کے چولہے جلائے اور جل گئے، ہمارا ذمہ اوش پوش۔ تب آگ لگی تھی، اس بار برف گری اور برفباری کی مدت ختم ہونے میں ڈیڑھ سال باقی ہے اور شیخ رشید کہہ چکے ہیں کہ برفباری اپنی مدت ہر صورت پوری کرے گی۔