Bhikari Nahi, Salis
Abdullah Tariq Sohail92 News718
وزیر اعظم نے دو ماہ پہلے، اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد، قوم سے جو خطاب کیا تھا، اس میں انہوں نے غیر ملکی قرضہ لینے کے رزائل بیان فرمائے، ان کی سخت مذمت کی اور قرضہ نہ لینے کے عزم پر ڈٹ جانے کا اظہار کیا اور وعدہ کیا کہ وہ کبھی یہ کام نہیں کریں گے۔ گزشتہ روز انہوں نے قوم سے خطاب میں قرضہ لینے کے فضائل بیان کئے اور قرضہ لینے کو اپنی کامیابی اور قوم کے لیے خوشخبری قرار دیا پچھلے خطاب میں انہوں نے قرضے کی "حرمت" بیان کی اس بار اس کا "وجوب" بتلایا۔ گویا یہ ایک "اجتہاد" تھا۔ اب وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ ہم یمن جنگ میں ثالثی کریں گے۔ یعنی جو تعاون "طے" ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ اسے انہوں نے ثالثی کا اچھا سا نام دے دیا ہے۔ تعاون اچھی بات ہے، اس کا نام بھی اچھا سا ہی ہونا چاہیے۔ ویسے بھی شیکسپئر فرما گئے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ ثالثی کو کسی بھی نام سے پکارو، وہ ثالثی ہی رہے گی اور تعاون کو کوئی بھی نام دو، وہ تعاون ہی رہے گا۔ آج ایک اخبار میں دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ بریگیڈیئر آصف ہارون کا انٹرویو چھپا ہے۔ فرمایا ہے کہ نواز حکومت نے سعودی عرب کی فرمائش نہ مان کر غلطی کی تھی۔ گویا اب اصلاح ہو گئی۔ تاریخ غلطیوں اور ان کی اصلاح کا نام ہے۔ ٭٭٭٭٭ثالثی جو بھی ہے۔ وزیر اعظم نے تنازعہ یمن کا نام دیا لیکن حکمران جماعت کے جتنے لیڈروں کے بیانات آئے ان میں سعودی عرب اور یمن میں ثالثی کی بات کی گئی۔ رات تین چار ٹی وی چینلز بھی جو تحریک انصاف کے رضا کارانہ ترجمان ہیں، سعودی یمن ثالثی کی بات کر رہے تھے۔ آج قومی اخبار نے اس پر "چشم کشا"تجزیہ چھاپا ہے۔ سرخی پڑھ کر بھی چشم کشائی ہو گئی۔ لکھا تھا، اسلامی ممالک بھی یمن اور سعودی عرب میں صلح چاہتے ہیں۔ یعنی ماشاء اللہ ہم "ثالثی" کرانے نکلے ہیں اور ہمیں علم ہی نہیں کہ ثالثی کن کے درمیان کرانی ہے۔ یمن اور سعودی عرب اتحادی ملک ہیں۔ ثالثی کا مسئلہ حوثیوں اور سعودی، یمن اتحاد کے درمیان ہے۔ حوثیوں کے پاس یمن کا ایک تہائی سے کچھ کم رقبہ ہے جو دراصل شمالی یمن کے بیشتر علاقوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک یمن کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں۔ حوثیوں کی بغاوت کو بغاوت بھی کہتے ہیں، اسے حکومت یا ملک کا نام نہیں دیتے۔ ٭٭٭٭٭وزیر اعظم کے خطاب کا عنوان سارے چینلز نے"قوم سے خطاب" دیا لیکن اصل میں وہ اپوزیشن سے مخاطب تھے۔ وہ اسے چیلنج کر رہے تھے کہ آئو، دھرنا دو جلوس نکالو۔ اسے بے مثال بہادری بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی آپ دنیا کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جو اپوزیشن کو رزم آرا ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی آپ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں۔ ڈرتے ورتے تو مشرف بھی نہیں تھے لیکن ایسا چیلنج دینے کی ہمت ان میں بھی نہیں تھی۔ ثابت ہوا کہ یہ ان سے بڑھ کر بہادر اور ہمت والے ہیں۔ فرمایا، این آر او نہیں ہو گا، کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہ وہ پہلے بھی فرما چکے ہیں۔ اور آئندہ بھی فرمائیں گے تاکہ قوم کو باور آ جائے کہ معاملہ این آر او کا ہے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ بات کچھ اور ہے۔ بلکہ معاملات کچھ اور ہیں۔ ویسے بھی این آر او دینے کا اختیار نہیں ہیں، ہو بھی نہیں سکتے۔ بہرحال، خواہش پر تو کوئی روک نہیں ٭٭٭٭٭غیر ملکی قرضے، مالیاتی پیکیج اشرافیہ کا مسئلہ ہیں۔ ان کا ملنا انہی کے لیے خوشخبری ہے۔ جو ریلیف ملنا ہے۔ انہی کو ملنا ہے"عوامیہ" کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے خطاب میں خوشخبری سنائی اشرافیہ کو) اور وزیر خزانہ نے بجلی گرا دی(عوامیہ پر) دس فیصد نرخ بڑھ گئے۔ نیپرا نے 20پیسے یونٹ کا اضافہ اسی روز الگ کیا۔ دو مہینے پہلے ایک اضافہ ہو چکا ہے، یہ دوسرا ہے اور شنید یہ ہے کہ پانچ روپے یونٹ تک مہنگی کرنے کا ہدف مزید تین اقساط میں حاصل کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے بجا فرمایا، کون سی قیامت آ گئی ہے، کون سا آسمان سر پر ٹوٹ پڑا ہے۔ واقعی!٭٭٭٭٭اس سارے شور قیامت میں یہ سوال غائب ہو گیا کہ سابق حکومت جو 17، 16ارب ڈالر چھوڑ کر گئی تھی وہ دو ہی مہینے میں آٹھ ارب کیسے رہ گئے۔ آٹھ نو ارب ڈالر کہاں غائب ہو گئے۔ گزشتہ روز ایک اپوزیشن لیڈر نے کسی چینل پر یہ سوال اٹھایا۔ لیکن ایک ہی چینل پر تھا۔ شاید یہ رقم اتنی معمولی ہے کہ اس کا "غائب" ہونا کسی کو کھٹکا ہی نہیں۔ ویسے غائب کہاں ہوئے ہوں گے، ادھر ادھر، کسی نہ کسی کی "زنبیل" میں پڑے ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭شاید کچھ لوگ حیرانی سے سوچ رہے ہوں کہ وزیر اعظم کے خطاب میں پیچھے قائد اعظم کی تصویر کیوں نظر نہیں آ رہی۔ نظر اس لیے نہیں آ رہی کہ لگائی ہی نہیں گئی تھی اور نہ لگانے کی وجہ شاید یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد جو خلا پیدا ہوا تھا، وہ اب ستر سال بعد پورا ہو گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک بار پھر بیان دیا ہے کہ پانامہ کیس کے 436ملزموں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی۔ آپ بار بار پھر بار بار کیوں یہ بیان دے رہے ہیں جبکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا "طے" ہوا تھا۔ آپ بھی اس وقت "زیر اعتماد" تھے جب طے ہونے والی بات طے ہوئی تھی۔ اور طے یہ ہوا تھا کہ ایسے کسی شخص کو نہیں پکڑا جائے گا جس کا نام پانامہ میں ہے۔ صرف اسے پکڑا جائے گا جس کا نام نہیں ہے۔