CPEC Ke Baal O Par
Abdullah Tariq Sohail92 News1220
حکمرانوں کو "پرواز ہے جنون" کا سنڈروم ہو گیا ہے۔ ہر کوئی جہاں تہاں اڑا اڑا پھرتا ہے۔ کوئی ہیلی کاپٹر پر وہاں سے یہاں اور یہاں سے وہاں آنے جانے میں لگا ہے۔ کوئی "بیوی بچوں سمیت سیر کرائیں تم کو پاکستان کی" گاتا ہوا اڑتے جہاز میں تصویریں بنا رہا ہے کسی نے ساس سسر کے پائوں چھونے ہیں تو ہیلی کاپٹر نکال لیتا ہے۔ طلسمات کا در ایسا کھلا ہے کہ اڑان کا خرچہ رکشے کے کرائے سے بھی کم ہو گیا ہے۔ یوں بچت کی جا رہی ہے۔ سنا ہے ہر روز 51ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ سال بھر میں قومی خزانہ لبریز ہو جائے گا۔ پھر دوسرا قومی خزانہ بنانا پڑے گا کہ پہلے میں تو دھیلی دھرنے کی جگہ بھی نہیں رہے گا۔ طلسمات کے دور میں سب کی نظر ان نئے تماشوں پر ہے اور کئی بڑی خبریں توجہ سے محروم ہی رہ گئی ہیں۔ یہاں تک کہ میڈیا والے بھی ان خبروں کو سرخیوں میں جگہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ پرسوں وفاقی کابینہ کا جو اجلاس ہوا اس میں ایک بڑی خبر آئی۔ ترجمان نے بریفنگ میں اس کا ذکر ایک جملے میں کیا۔ کسی نے سنا کسی نے نہیں سنا۔ حالانکہ یہ وہی خبر تو تھی جس کی نموداری کے لیے چار سال سے پاپڑ کے بعد پاپڑ بیلے جاتے رہے۔ وزیر اطلاعات نے بتایا کہ سی پیک کے "پراجیکٹس" پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی آ چکی ہے کہ پشاور تا کراچی ریلوے لائن کو دہرا اور اپ گریڈ کرنے کا کام بھی ٹھپ کر دیا گیا ہے۔ ٹھپ کیا، یہ شروع ہی نہیں ہونے والا۔ خبر یہ ہے کہ سی پیک اور دیگر سرمایہ کاری کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے، چین اسے حیرانی اور بے یقینی سے دیکھ رہا ہے۔ نظرثانی کا مطلب بتانے کی ضرورت نہیں۔ پہلا فیصلہ واپس لینے ہی کو نظر ثانی کہتے ہیں۔ سی پیک جتنا بن چکا ہے وہ تو رہے گا لیکن اسے بال و پر یعنی منصوبوں سے محروم کر دیا جائے گا۔ مرغ بے بال و پر اڑان بھرنے کے قابل نہیں رہتا۔ افادی طور پر اس کا وجود عدم وجود کے برابر ہو جاتا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ امریکی وزیر خارجہ جناب پومپیو کے مبارکبادی فون کا تعمیری نتیجہ ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو فون کیا تھا۔ گفتگو کے مشمولات پر تردیدی بحث بھی ہوئی لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق گفتگو بہرحال تعمیری رہی۔ لیکن یہ خیال ٹھیک نہیں ہے۔ امریکہ بہادر کا فون محض یاددہانی کا نوٹس تھا۔ ان فیصلوں کی یاددہانی جو 2014ء میں کر لئے گئے تھے تب جس "بی مانو" نے ذرا سا جلوہ دوران دھرنا دکھایا تھا، اب وہ تھیلے سے باہر آ کر رونمائی کرانے کے لیے بے قرار ہے۔ ٭٭٭٭٭سی پیک دو طرفہ فائدے کا منصوبہ ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگوں نے اسے پاک چین دوستی کا تحفہ قرار دیا ہے۔ یہ سیاسی بیان ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ چین تو کسی کو مونگ پھلی کا چھلکا بھی مفت نہیں دیتا۔ کہتے ہیں دوستی چین کی چین میں نہیں۔ خیر، اسے مبالغے والا تبصرہ سمجھئے۔ لیکن حقیقت اتنی ہے کہ یہ سقے اور پیاسے کا بندوست ہے۔ سقے کو دھیلہ چاہیے، پیاسے کو پانی کی کٹوری۔ دھیلہ دے کر پیاسا سقے پر کوئی احسان نہیں کرتا۔ سقہ پانی پلا کر پیاسے سے نیکی نہیں کرتا، دونوں ضرورت مند ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ سی پیک سے چین کو سستی راہداری ملے گی۔ ہمیں کرایہ اور دوسرے باقی پراڈکٹ ملیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ زیادہ فائدہ چین کو ہو گا لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ سستے میں اپنا سودا کرنا ہماری پرانی عادت ہے۔ ایسی عادت جواب مجبوری بن گئی ہے۔ ویسے سی پیک کی آدھی ٹانگ تو نواز حکومت نے اس کا رخ موڑ کر توڑ دی تھی۔ شارٹ کٹ تو گلگت، پختونخواہ اور بلوچستان تھا لیکن اسے پہلے لاہور، پھر کراچی اور وہاں سے گوادر لے جانے کا نقشہ بنایا گیا۔ کہتے ہیں حکومت کو "یقین" تھا کہ بلوچستان کے حالات تو کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ادھر سے گزار کر اس کی "معطلی" کا خطرہ کیوں مول لیا جائے چنانچہ روٹ بدل دیا گیا۔ خدشہ اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ بلوچستان ہی نہیں پختونخواہ کے سرحدی حالات بھی جیسے تھے، ویسے ہیں۔ تبدیلی کی خوشخبریاں افواہیں تھیں، افواہیں ہی رہیں۔ ویسے بہتر تھا کہ ہم افغانستان سے بھی امن کی بات کر لیتے۔ ایک شاہراہ، سڑک اور ریل دونوں کی، افغانستان کے اندر سے وسط ایشیا تک لے جاتے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر ڈالروں سے نہیں سونے کی اینٹوں سے بھر جاتے۔ لیکن کیا کیجئے ہماری قسمت کو ایسا پکا رنگ لگا ہے کہ خود ہمی کو یہ "یقین" ہو گیا ہے کہ افغانستان میں امن ہمارے مفاد میں نہیں اور وسط ایشیا سے تعلق بنانا تو بالکل ہی مفاد میں نہیں۔ ٭٭٭٭٭ادھر امریکہ نے "تبت" میں پھر سے چھیڑ چھاڑ کا سوچنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی امریکی رپورٹیں آ رہی ہیں کہ تبت میں علیحدگی پسند اپنی کارروائیوں میں شدت لانے والے ہیں۔ رپورٹوں کا مطلب واضح ہے۔ شدت آ نہیں رہی، لائی جائے گی۔ سی پیک سے ناخوش امریکہ چین کو اندر سے تنگ کرنے کی سوچ رہا ہے۔ تبت ایک دبا ہوا مسئلہ ہے جسے امریکہ اور بھارت جب چاہیں ابھار سکتے ہیں۔ تبت رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا ملک ہے جس پر چین نے 1951ء میں قبضہ کر کے اپنا صوبہ بنا لیا تھا لیکن تبتی لوگوں نے اس قبضے کو قبول نہیں کیا۔ ان کا حکمران "دلائی لامہ" بھارت میں پناہ گرین ہے تبت کا رقبہ پونے پانچ لاکھ مربع میل ہے یعنی پاکستان سے ڈیڑھ گنا، لیکن آبادی بہت کم ہے، محض 35لاکھ۔ غنیمت ہے کہ یہاں کی ڈیمو گرافی چین نے ابھی نہیں بدلی۔ اب بھی 90فیصد باشندے تبتی ہیں۔ چینی آبادی محض 8فیصد۔ سنکیانگ والے اتنے خوش قسمت نہیں۔ 1948ء میں جب چین نے سنکیانگ پر قبضہ کیا تھا تو اس کی 95فیصد آبادی مسلمان تھی۔ پھر آہستہ آہستہ چین نے اس کی ڈیمو گرافی بدلنا شروع کی، چینی باشندوں کی آباد کاری ہوتی رہی، یہاں تک کہ مسلمان محض 45فیصد رہ گئے اور ابھی آباد کاری بھی جاری ہے اور بعض الزامات کے تحت یغورمسلمانوں کی نسل کشی بھی۔ چینی آبادی 41فیصد ہے۔ باقی دیگر اقوام ہیں۔ یعنی مسلمان سب سے بڑا گروہ تو ضرور ہیں لیکن اکثریت نہیں رہے۔ ہو سکتا ہے امریکہ سنکیانگ میں بھی کچھ رنگ جمانے کی کوشش کرے لیکن اس میں خطرہ ہے کہ طالبانائزیشن کا دائرہ بڑھ جائے گا۔ امریکی رپورٹیں اگر بامعنی ہیں تو چین کو تبت کے محاذ پر زیادہ کڑے پہرے بٹھانے ہوں گے۔ اتنا تو وہ بھی جانتا ہے کہ بھارت کی مرضی کے بغیر امریکی مداخلت زیادہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکے گی اور فی الحال بھارت اس بارے میں زیادہ گرم جوش نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭وزیر اعظم نے کابینہ کے ایک اجلاس میں ہدایت کی ہے کہ بیرون ملک سے پاکستانی دولت جلد واپس لائی جائے۔ وہ دولت جو "لوٹ مار" کر کے باہر لے جائی گئی۔ بظاہر "بیرون ملک" میں دبئی شامل نہیں ہے کیونکہ وہاں تو "اپنوں " اور "اپنیوں " کی جائیدادیں ہیں۔ چنانچہ سوئٹزر لینڈ اور لندن ہی رہ جاتے ہیں۔ لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اہم ترجیح ہیں۔ لیکن ان کی مالیت دسیوں کروڑ میں ہے۔ اربوں میں نہیں، پھر ان پر قبضے اور فروخت کا کوئی راستہ بھی موجود نہیں۔ ایک زبردست شہرہ یہ تھا کہ سوئس بنکوں میں دو سو ارب ڈالر پڑے ہیں۔ یہ شہرہ لطیفے میں تب بدلا جب کسی نے انکشاف کیا کہ یہ دو سو ارب ڈالر کبھی تھے ہی نہیں۔ ایک ارب 97کروڑ ڈالر تھے۔ اس رقم کو اعشاریہ سے ظاہر کیا گیا یعنی 1.97ارب ڈالر۔ کسی ستم ظریف نے شرارت سے یا کسی بھولے میاں کے بھولپن سے بیچ کا "ڈاٹ" اڑا دیا اور یوں یہ 197ارب ڈالر (تقریباً دو سو ڈالر) بن گئے۔ پھر کوئی بات نہیں اس دو ارب ڈالر ہی کی واپسی کا کچھ پربندھ فرمالیں۔ کیا پتہ کسی چلے وظیفے کی برکت سے یہ دو ارب پاکستان آتے آتے دو سو ارب ڈالر ہو جائیں۔