Dukhiya Neela Sayyara
Abdullah Tariq Sohail92 News699
ایک ساڑھے تین سطر کی خبر، وہ بھی صرف ایک اخبار میں چھپی ہے اور اتنی غیر نمایاں جگہ پر چھپی ہے کہ بہت سے لوگوں کی نظر پڑنے سے رہ گئی ہوگی۔ خبر یہ ہے کہ عالمی ادارے کے مطابق نائن الیون کے بعد امریکہ نے جو جنگ چھیڑی، اس میں پچاس لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور اس جنگ پر 6 کھرب ڈالر کا خرچ اٹھا۔ مارے جانے والوں کا تعلق پاکستان، افغانستان اور عراق سے تھا۔ پاکستان میں تو ایک لاکھ سے کم کچھ لوگ اس جنگ کی نذر ہوئے، یوں یہ سارے لوگ اور ملکوں میں مارے گئے۔ 50لاکھ لاشیں کتنی ہوتی ہیں؟ ایک قطار میں رکھی جائیں تو دوسرا سرا کہاں جائے گا۔ کوئی تصور ممکن نہیں، چھ کھرب ڈالر کتنے ہوتے ہیں کون حساب لگا سکتا ہے۔ خبر میں جوبات نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یہ پچاس لاکھ لاشیں مسلمان تھیں۔ پچاس لاکھ اذیت ناک اموات، پچاس لاکھ دردناک کہانیاں جو کوئی نہیں لکھے گا کہ کہانی ایک آدمی کی موت پر لکھی جاتی ہے۔ اتنی زیادہ اموات ہوں تو مشرقی محاورہ یہ ہے کہ مرگ انبوہ جشنے دارد اور ولایتی محاورہ یہ ہے کہ یہ بس گنتی ہوتی ہے۔ خبر میں یہ بات بھی نہیں ہے کہ نائن الیون کے آف شوٹ اور بھی ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ شام میں مرے، دسیوں ہزار مصر میں، اس سے بھی زیادہ لیبیا میں، پھر نائجیریا میں، پھر نائیجر میں، پھر مالی میں اور چاڈ میں، پھر وسطی افریقی جمہوریہ میں، پھر یمن میں، پھر صومالیہ میں۔ مل ملا کے یہ بھی لاکھوں ہو جاتے ہیں اور یہ لاکھوں بھی مسلمان ہیں۔ فلسطین میں تو ستر سال سے سلسلہ چل رہا ہے۔ نائن الیون سے ہٹ کر مسلمان لاشوں کے کچھ ڈھیر برما میں بھی نذر آتش کئے گئے، کچھ بنگلہ دیش میں مرے، کشمیر اور بھارت میں، ہزاروں سنکیانگ میں اور وسط ایشیا میں۔ روس نے بہت سے کوہ قاف میں مارے وہ بھی سب مسلمان تھے۔ سوڈان میں اور مشرقی پاکستان میں اور انڈونیشیا میں بھی دسیوں لاکھ مسلمان ہی مرے۔ اور کچھ ہی عرصہ پہلے لاکھوں بوسنیا اور دوسرے بلقانی علاقوں میں مرے، اتنے ہی فلپائن اور تھائی لینڈ میں اور کمپوچیا میں مرے۔ پھر لاکھوں ایران، آذربائیجان، لبنان اور سوڈان میں مرے۔ یہ بھی مسلمان تھے۔ بیسویں صدی میں نصف اول کے بعد مسلمانوں کی باری آئی۔ اور علاقوں میں بھی لوگ مرے، ویت نام میں، افریقہ میں، وسطی اور جنوبی امریکہ میں کچھ قبرص اور ترکی میں لیکن مجموعی طورپر اس صدی کا نصف آخر اور رواں صدی کا ربع اول مسلمانوں کے نام ہی رہا۔ ٭٭٭٭٭گزشتہ صدی کا نصف اول یورپ کے لیے تباہی لایا۔ دو بڑی اور کچھ چھوٹی جنگوں میں سات آٹھ کروڑ لوگ مارے گئے۔ ان بڑی جنگوں میں ترک، شمالی افریقہ اور عربستان کے عرب، چین جاپان کے لوگ بھی خاصی گنتی میں مرے لیکن غالب اکثریت یورپیوں کی تھی۔ یہ مرنے والے مسیحی تھے اور مارنے والے بھی۔ روسی، برطانوی، فرانسیسی، پولش لوگ سرفہرست رہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا حصہ اجتماعی اموات سے عبارت ہے۔ چاہے قدرتی آفات ہوں یا ان کی شروع کی گئی جنگیں۔ کبھی کبھی معیشت کے حوالے سے مالتھس کی تھیوری یاد آتی ہے کہ جب آبادی بڑھ جائے تو اجتماعی اموات ہوتی ہیں۔ یہ تھیوری زیادہ درست نہیں، کیونکہ اجتماعی اموات کے بہت بڑے بڑے واقعات ایسے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں جہاں آبادی بہت کم ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی ایک تھیوری ہے، وہ ہے انسان کے خونریز ہونے کی تھیوری۔ ٭٭٭٭٭اجتماعی قتل، سینکڑوں میں یا لاکھوں میں یا اس سے بھی بڑھ کر کروڑوں میں، انسان کا ناگزیر شوق رہا ہے۔ تقریباً شروع ہی سے یہ اس کی فطرت رہی۔ تقریباً کا تکلف اس لیے کرنا پڑا کہ بالکل شروع میں تو آبادی محض چند نفر تھی۔ آدم ؑ اور ان کے چند بیٹے۔ پھر ایک نے دوسرے کو قتل کردیا اور یوں انسانی فطرت کا بہائو چل نکلا۔ نکتہ دیکھئے۔ انسان نے قتل کرنا خود سیکھا لیکن دفن کرنا نہیں سیکھا۔ کوا بھیجا گیا، تب سیکھا (کیف یواری سورۃ۔ المائدہ) انسان آج بھی ہزاروں لاکھوں لاشیں بچھاتا ہے، دفن کرنا بھول جاتا ہے۔ خونریزی انسان کی فطرت میں ہے۔ خدا نے انسان کو بنانے کا فیصلہ کیا اور فیصلے کی خبر فرشتوں کو دی۔ فرشتوں نے پلان سنتے ہی تشویش ظاہر کی کہ یہ تو خونریزی کرے گا۔ خدا نے اپنے کلام میں انسانوں کو ان کے ظلوم و جہول ہونے کی اطلاع دی اور فرمایا کہ وہ شروع سے ایسا تھا (انہ کان ظلوماً جہولا) "کان یعنی تھا، مطلب یہی نکلا۔ شاید اس کی بھی مصلحت تھی۔ وہ خون بہانے والا نہ ہوتا تو آج دنیا کی آبادی سات ارب نہ ہوتی، شاید سات سو ارب ہوتی۔ اتنے لوگوں کا ننھے منے کرۂ نیلی فام پر رہنا محال تھا۔ ٭٭٭٭٭انسانی خونریزی کا رخ جتنا انسان کی طرف ہے، اس سے زیادہ جانوروں کی طرف ہے۔ فرشتوں کا زیادہ اشارہ شاید اسی طرف تھا۔ انسان اپنے ہم جنسوں کو فی سال لاکھوں کی اوسط کے حساب سے قتل کرتا ہے لیکن وہ کتنے جانوروں کو مارتا ہے؟ آپ کہیں گے کروڑوں۔ لیکن آپ کا جواب سچ سے بہت کم ہے۔ اربوں بھی نہیں، ہر سال کھربوں جانور انسان کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ کھربوں تو وہ صرف اپنے کھانے کے لیے مارتا ہے۔ دنیا میں ہزاروں کارخانے جانور بنانے میں لگے رہتے ہیں (جی ہاں، جدید کارپوریٹ کلچر نے اینمل فارمنگ کو اب میٹ انڈسٹری یعنی گوشت کی صنعت کا نام دیا ہے۔ مرغی، ٹرکی، خرگوش، بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، سور اور مچھلی "سازی" کے کارخانے ہر سال اربوں جانور بناتے ہیں، پھر انہیں دردناک موت دے کر انسانوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک کا ایندھن بنا دیتے ہیں۔ اربوں مچھلیاں، چھوٹی مچھلی سے لے کر وہیل مچھلی تک، ہر سال ماری جاتی ہیں، پھر کیکڑے، لاسٹر اور لاکھوں، کروڑوں جانور اور پرندے جن کو تیر، بندوق سے مارا جاتا ہے۔ دنیا کو انسان نے دکھوں کا گھر بنا دیا۔ کائنات میں اربوں کہکشائیں ہیں، ستاروں سیاروں کی گنتی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن سنا ہے کہ ان لاتعداد کھرب ہا کھرب سیاروں میں سے کچھ ارب ایسے ہو سکتے ہیں، وہ ہیں جو زمین کی طرح آباد ہیں۔ کیا یہ کئی ارب سیارے بھی نیلے سیارے زمین کی طرح دکھوں کا گھر ہیں۔"