نگران کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔ وزیروں کے تعارف نامے دیکھ کر نئی حکومت کے رحجانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً مدد سندھی اور مرتضیٰ سولنگی بھی وزیر بنا دئیے گئے، یعنی نئی حکومت علم اور دانش وری کی قدردان ہے۔ احد چیمہ کی تقرری سے لگتا ہے حکومت مدرسہ کار میں دیانتداری اور قابلیت کی قدر دان ہوگی، مشعال ملک کی تقرری کرکے حکومت نے کشمیر کاز (مرحوم) کو خراج عقیدت پیش کیا، گوہر اعجاز اپٹما والے کی تقرری بتاتی ہے کہ سابقہ حکومتوں کی اشراف نواز پالیسیوں کا تسلسل آگے بڑھایا جائے گا اور ان مستحقین کا سرکاری خزانے سے دامے درمے ڈالرے پونڈے ہر طرح سے "افلاس" دور کیا جاتا رہے گا۔
رہے 24 میں سے 23 کروڑ عوام کالانعام تو
نہ سنو میرے نالے ہیں درد بھرے، دارو اثرے آہِ سحرے
تمہیں کیا جو کوئی مرتا ہے مرے اے دشمنِ جاں بیداد گرے
***
رات ایڈیٹ باکس کی سکرین پر ا یک باخبر تجزیہ نگار فرما رہے تھے کہ نئی حکومت کم سے کم چھ ماہ اس لئے رہے گی کہ اسے صرف الیکشن ہی نہیں کرانے، معیشت بھی ٹھیک کرنی ہے۔
الیکشن کرانے کی بات تو ٹھیک لیکن معیشت ٹھیک کرنے والی بات ٹھیک نہیں اس لئے کہ اس کی مزید ضرورت نہیں۔
اسحاق ڈار اور شہباز شریف نے معیشت پہلے ہی اتنی زیادہ ٹھیک کر دی ہے کہ عوام لب گور تک جا پہنچے۔ اب مزید کسی اقدام کی ضرورت اس لئے نہیں کہ جو پہلے ہی لب گور جا پہنچا ہو، ہوا کا محض ایک جھونکا، آواز سے پیدا ہونے والی ذرا سی لرزش اسے لڑھکا کر گور نشین کرنے کے لیے کافی ہے۔ چنانچہ معیشت کو مزید ٹھیک کرنے کی کوشش وقت اور توانائی کے ضیاع کے مترادف ہوگی۔
ملک کے جملہ وسائل بلاشرکت غیرے پہلے ہی اشرافیہ کی ملکیت ہیں اور دور دور تک اسے کسی موسمی ناساز گاری کا اندیشہ نہیں، پھر سعی بے معنی کے کیا معنے؟
***
اسحاق ڈار یاد آئے۔ وہ جب جلاوطن تھے تو ایک کالم میں ان کے بارے میں دو پیش گوئیاں کی تھیں۔ ایک غلط نکلی، دوسری ٹھیک ثابت ہوئی۔ یہ دور عمرانی کی بات ہے۔
ٹھیک ثابت ہونے والی پیش گوئی یہ تھی کہ عمرانی حکومت نے معیشت کو اس بری طرح تباہ کرکے ایک صدی پیچھے دھکیل دیا ہے کہ کوئی اور تو کیا، اسحاق ڈار بھی آ جائیں تو ٹھیک نہیں کر سکتے۔
الحمد للہ یہ پیش گوئی سو فیصد درست نکلی۔ ڈار صاحب معیشت کو ذرا بھی ٹھیک نہیں کر سکے۔
غلط نکلنے والی پیش گوئی یہ تھی کہ ڈار صاحب اگرچہ معیشت کو درست نہیں کر سکیں گے لیکن اسے مزید خراب ہونے سے روک لیں گے یعنی بریک لگا دیں گے۔
وہ بریک نہیں لگا سکے۔ اس لئے کہ وہ بریک لگانا چاہتے ہی نہیں تھے۔ جلاوطنی کے مہ و سال نے ان کی فکر و نظر میں جوہری تبدیلی کر دی تھی۔ وہ اس "ڈاکٹرائن" کے قائل ہو چکے تھے کہ مراعات صرف مراعات یافتہ طبقے کے لیے، محرومیاں صرف محروم طبقے کے لیے۔ ان کی خوش قسمتی کہ انہیں ملنے والا وزیر اعظم بھی اسی ڈاکٹرائن کا پرجوش مقلّد اور مبلّغ تھا چنانچہ ہر دو حضرات رخصت ہوئے تو ایسی اشرافیہ چھوڑ کر جو پہلے سے کہیں زیادہ پیٹ بھری، آسودہ حال اور طاقتور ہے۔ الحمدللہ!
***
مولانا طاہر اشرفی نے سانحہ جڑانوالہ پر جس میں جلائے گئے چرچوں کی تعداد 16 یا 17 ہو چکی ہے، مسیحی برادری سے علما کی طرف سے معافی مانگی ہے۔
ایک دلچسپ نکتہ اس معافی سے برآمد ہوا۔ کچھ احباب سے اسی بارے میں بات ہو رہی تھی۔ ایک نے کہا، دینی مدارس کے نصاب پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ان سے عرض کیا، نظرثانی نہیں، فارنزک کی ضرورت ہے۔ یعنی اس بات کی کہ کیا واقعی مدارس میں وہی نصاب پڑھایا جاتا ہے جو کہ بتایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ نصاب کی کتابوں میں تو ایسا کچھ نہیں جس کے نتیجے میں ایسے علما پیدا ہوں جیسے ہو رہے ہیں؟
تیسرے صاحب نے کہا، جڑانوالہ میں تمام دنگا فساد عام لوگوں نے کیا جن کا مدارس سے کوئی تعلق نہیں۔ وائے ناواقفی۔
یہ "غیر متعلق لوگ" مدرسوں کے پڑھے نہیں لیکن جن کے بھڑکاوے میں آ کر وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں، وہ انہی مدرسوں کے علما ہیں۔ سب نہیں یعنی یہاں جزو کی بات ہو رہی ہے کل کی نہیں۔
یہی وہ نکتے کی بات ہے جو ہمارے دوست نہیں سمجھے لیکن طاہر اشرفی سمجھ گئے۔ اللہ کے نبی نے فرمایا، لاش اور قبر کی حرمت ہے خواہ کسی کی ہو لیکن جڑانوالہ میں چرچ بھی جلائے گئے اور قبریں بھی اکھاڑی گئیں۔
***
بنگلہ دیش 2009ء سے حسینہ واجد وزیر اعظم ہیں۔ یعنی ان کی حکمرانی کا یہ پندرھواں سال ہے۔ ان کے دور میں بنگلہ دیش نے حیرت انگیز ترقی کی، غربت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔
شاہراہوں اور پلوں کا جال بچھا، شرح اموات کم ہوئی، کارخانے لگے، روزگار اور تعلیم بڑھی۔ خارجہ پالیسی اتنی کامیاب کہ عالمی برادری میں آج بنگلہ دیش کی آواز پاکستان سے کہیں زیادہ، توجہ کے ساتھ سنی جاتی ہے لیکن ان کی ذات بے رحم آمریت کا نمونہ ہے۔ وہ مخالفوں کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ انسانی حقوق کی پامالی نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ اپوزیشن کو کچل کر رکھ دیا۔
دو ہفتے قبل اسی کچلی ہوئی اپوزیشن نے یکایک انگڑائی لی۔ ڈھاکہ سمیت تمام شہروں میں غیر متوقع طور پر زبردست مظاہرے ہوئے۔
ڈھاکہ میں خالدہ ضیاء کی پارٹی نے 50 ہزار افراد کا جلوس نکالا دوسرا جلوس زیادہ معتوب جماعت اسلامی کا تھا جس میں 20 ہزار سے زیادہ افراد شریک ہوئے۔ ان مظاہروں نے حسینہ واجد کو ششدر کرکے رکھ دیا لیکن اس ایک دن کے مظاہروں کے بعد پھر خاموشی چھا گئی۔
یہ خاموشی گزشتہ ہفتے اس وقت ٹوٹی جب جماعت اسلامی کے نائب امیر اور مشہور سکالر دلاور حسین سعیدی جیل میں وفات پا گئے۔ وہ تیرہ سال سے قید تھے اور گزشتہ کئی ماہ سے علیل بھی۔ حکومت کی ہدایات پر انہیں علاج معالجے سے محروم رکھا گیا۔ دوائی دینے سے انکار کیا گیا۔ حالت نازک ہوئی تو ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ چل بسے۔
ان کے جنازے نے حیرت انگیز فضا پیدا کر دی۔ ہر بڑے چھوٹے شہر میں ان کا غائبانہ جنازہ اٹھا اورنمازجنازہ ہوئی جن میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ درجنوں جنازے محض ڈھاکہ میں اور چار کا کسنر بازار میں۔ ہر جنازہ پرامن احتجاج کا مظاہرہ بھی بن گیا اور دلاور سعیدی کی مظلومانہ وفات نے جہاں حکومتی آمریت سے نفرت کی فضا پیدا کی، وہاں جماعت اسلامی کو بھی متحرک ہونے کا موقع ملا۔ عوام نے جماعت سے ہمدردی ظاہر کی۔
ایسے آثار ہیں کہ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہو جائے، آثار کی شروعات کے آثار البتہ پیدا ہو گئے۔