Ghair Muslim Gadhay
Abdullah Tariq Sohail92 News834
بلوچ رہنما لشکر رئیسانی نے مطالبہ کیا ہے کہ سانحہ مستونگ پر سچائی کمشن بنایا جائے جو ضیاء الحق دور سے لے کر آج تک کی پالیسیوں کا جائزہ لے۔ سانحہ مستونگ پر ہر شہری دکھی ہے لیکن ان سب کا دکھ ان لوگوں کے دکھ جیسا کبھی نہیں ہو سکتا جن کے پیارے اس قتل عام میں مارے گئے۔ دوسو کے لگ بھگ تو شہید ہوئے اور اتنے ہی زخمی جن میں سے کئی تو باقی عمر کے لیے معذور ہو گئے۔ لشکری رئیسانی کا بھائی سراج رئیسانی بھی شہدا میں شامل ہے جس کے انتخابی جلسے پر بم حملہ کیا گیا۔ لشکری صاحب کا دکھ اپنی جگہ بجا لیکن ایسا مطالبہ کرنا کیا کار لاحاصل نہیں؟ پاکستان سانحات کی سرزمین ہے۔ ان گنت حادثے ہوئے۔ کسی پر کمشن بنا، کسی پر نہیں لیکن نتیجہ سب کا ایک یعنی کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ایبٹ آباد کے سانحے نے ساری دنیا میں ہمارا سر جھکا دیا۔ اس پر کمشن بھی بنا لیکن کیا ہوا، کیا اس کی رپورٹ آ گئی؟ رپورٹ بنی لیکن پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ بلدیہ ٹائون میں تین سو مزدور، لال مسجد میں سات سو بچیاں زندہ جلا دی گئیں۔ کسی مجرم کی نشاندہی ہوئی نہ ملزم کی، پکڑے جانے کا تو سوال ہی کہاں۔ بلوچستان میں جیسی سخت سکیورٹی ہے اور فی کس جتنی نفری لگائی گئی ہے اس حساب سے اسے دنیا کا محفوظ ترین خطہ ہونا چاہیے لیکن یہ بدستور سب سے زیادہ غیر محفوظ علاقہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے حالات میں ذرا سا سنبھالا آنے لگا تھا لیکن سنجرانی ماڈل نے معاملہ پھر وہیں پر پہنچا دیا جہاں پہلے تھا۔ بلوچ آبادی پہلے ہی تھوڑی ہے، مزید تھوڑی ہوتی جا رہی ہے کسی دل جلے نے انوکھا تبصرہ کیا، لکھا:بلوچستان کو وسائل آبادی کے اعتبار سے لاشیں رقبے کے لحاظ سے دی جاتی ہیں۔ سانحہ ہونا ایک المیہ ہے، سانحے پر بے پروائی دوسرا المیہ اور ہمارے ہاں ان دونوں قسم کے المیوں کی افراط ہے کمشن بنا تو کیا، نہ بنا تو کیا۔ ٭٭٭٭٭مسلم لیگیوں کو مبارک ہو۔ دائرہ اسلام سے تو وہ پہلے ہی خارج ہو چکے، حلف نامے میں تبدیلی کے مسئلے پر، اب خان صاحب نے انہیں دائرہ انسانیت سے بھی نکال باہر کیا ہے۔ جس رات نواز شریف نے گرفتاری دینے کے لیے لندن سے لاہور آنا تھا، اس سہ پہر خان صاحب نے نارووال میں جلسہ کیا اور فرمایا کہ جو بھی نواز شریف کے استقبال کے لیے جائے گا، گدھا ہو گا۔ اگلے روز لوگوں نے استقبال کیا تو خان صاحب نے صوابی کے جلسے میں اپنے فتوے کی مزید صراحت کی۔ کہا، استقبال کو جانے والے لوگ انسان نہیں تھے، گدھے تھے، شرم اور حیا نام کی کوئی شے ان میں نہیں ہے۔ یعنی جن افراد کا خیال تھا کہ خان صاحب نے گدھے کا لفظ محاورتاً استعمال کیا ہے، ان پر واضح ہو گیا کہ محاورتاً نہیں، خان صاحب نے انہیں سچ مچ "غیر انسان" قرار دے دیا ہے۔ یعنی جواب تک غیر مسلم تھے، اب غیر انسان بھی ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمن نے خان صاحب کے اس تبصرے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی باتیں کر کے خان صاحب اپنا تعارف خود کرا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، تعارف کرانے کی ذمہ داری انہی دنوں کوئی محترمہ پورا کر چکی ہیں۔ ٭٭٭٭٭اس دوران ایک اور بحث بھی آ گئی کہ ان غیر مسلم گدھوں کی تعداد کتنی تھی جو نواز شریف کے ساتھ یکجہتی والے جلوس میں شامل تھے؟ یہ بحث اس لیے چھڑی کہ آزاد میڈیا نے اپنی "آزادانہ" مرضی سے یہ طے کیا تھا کہ غیر مسلم گدھوں کے جلوس کا مکمل بلیک آئوٹ کیا جائے گا۔ چنانچہ کئی گھنٹے تک نکلنے والے اس جلوس کی خبر ٹی وی سکرین پر نہ آ سکی۔ چنانچہ سوال کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ ایک چینل نے، جو خان صاحب کا عرصہ چار سال سے ترجمان ہے، بتایا کہ تین سو سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کی تصدیق تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کے بیان سے بھی ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا کہ جلوس میں چند سو لوگ بھی نہیں آئے۔ تین سو یعنی چند سو اور چند سو یعنی تین سو۔ شہباز شریف کا دعویٰ ہے اور دوسرے لیگی رہنمائوں کا بھی لاکھوں افراد تھے۔ ایک ٹی وی اینکر نے اپنے پروگرام میں جو نشر نہیں ہو سکا اور سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا۔ بتایا کہ پچاس ہزار سے زیادہ افراد صرف لوہاری گیٹ پر تھے۔ داتا صاحب، پی ایم جی اور جی پی او میں اتنے ہی لوگ اور تھے اور باقی شہر میں اس سے سوا اور وہ تو گنتی میں شامل ہی نہیں جو دوسرے شہروں سے آ رہے تھے پر ناکہ بندیوں نے روک لیے۔ نہ تو شہباز شریف صادق و امین ہیں نہ مذکورہ اینکر صاحب اور ان کے دیگر ہمنوا، اس لیے ان کے دعوے یکسر مسترد کر دینے چاہئیں۔ دوسری طرف علیم خان مہربند صادق و امین ہیں اور اسی طرح مذکورہ اول ٹی وی چینل بھی، چنانچہ تین سو والی بات پر ایمان لانا ہی راہ صواب ہے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ تین سو افراد جلوس کے آٹھ دس کلو میٹر لمبے روٹ میں کس طرح جام پیک ہو کر پھیل گئے؟ لاہور اس روز بری طرح سیل بند تھا۔ ماسٹر جی نے اسے بارہ مئی کا کراچی بنا دیا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سینکڑوں ناقابل تسخیر فصیلیں کنٹینروں کی شہر بھر میں گاڑ دی تھیں، چنانچہ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ محض تین سو غیر مسلم گدھوں نے یہ ساری فصیلیں کس طرح شکست کر دیں؟ اصل خلائی مخلوق تو پھر یہ تین سو غیر مسلم گدھے ہوئے۔ ٭٭٭٭٭نواز شریف بالآخر اپنی بیٹی سمیت اڈیالہ جیل میں پہنچ گئے۔ وہاں کی تنہائیوں میں اب کیا سوچتے ہوں گے؟ یہی کہ عاے"تیرگی طبع" تو برمن بلاشدیان کی سوچ محبان وطن کے خیال میں تیرہ و تار تھی۔ یہ کہ بھارت اور چین سے دوستی اور امن رکھا جائے اور اس طرح سے امریکہ میں انحصار کم کر کے ملکی ترقی اور خوشحالی کا راستہ کھولا جائے۔ سڑکیں بنائی جائیں، جی ڈی پی میں اضافہ کیا جائے سی پیک کے ذریعے پاکستان کو عالمی تجارت کی راہداری بنایا جائے۔ اور اسی طرح کی دیگر تیرہ وتار سوچیں۔ بری سوچیں، برا انجام٭٭٭٭٭تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ نواز شریف ہماری کوششوں سے اڈیالہ جیل پہنچے۔ بالکل، کریڈٹ شاہ محمود صاحب کو جاتا ہے۔ ایسے کریڈٹ لینا ان کی تاریخی روایت ہے۔ انگریزوں کے خلاف غدر ہو رہا تھا۔ پنجاب کے بعض غدر پسند غدار بھی ان میں شامل تھے۔ ان میں ایک بہت نمایاں رائے احمد خان کھرل تھے۔ انگریزوں کے لیے چھلاوہ بنے ہوئے تھے، پکڑائی میں نہیں آ رہے تھے۔ ایک دن خفیہ مقام پر نماز پڑھ رہے تھے۔ کسی "محب وطن" نے دیکھ لیا، انگریزی فوج آ گئی اور حالت نماز میں کام تمام کر دیا۔ یہ محب وطن کون تھا؟ شاہ صاحب کو سب سے زیادہ پتہ ہے۔ جس کا جو کریڈٹ ہے، اسے مل کر رہتا ہے۔