پٹرول ہفتہ ڈیڑھ میں 60 روپے لٹر اور بجلی دو دنوں میں بارہ روپے مہنگی ہو گئی۔ اور ریٹنگ کے عالمی ادارے موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ منفی کر دی۔ ساتھ ہی یہ بری خبر بھی سنا دی کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی کا امکاں کم ہی ہے۔ یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ عالمی بنکوں نے پاکستانی بنکوں کو کریڈٹ لیٹر جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے تیار نہیں تو تیل بجلی مہنگی کرنے کا ظلم کیوں کمایا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ کہا تو یہی گیا تھا کہ یہ چیزیں مہنگی کریں گے تو قرضہ ملے گا اور وہ تو ملا نہیں۔ پھر مرے ہوئے یا مرتے ہوئے عوام پر شاہ مدار کیوں سوار ہو گئے؟
ایک اور معمہ بڑا مشکل سامنے آ گیا ہے۔ ہمیں ملک کے سچے ترین آدمی کی زبانی یہ سننے کو ملا تھا کہ امریکہ میری حکومت سے ناراض ہے اور اس نے دھمکی دی ہے کہ میری حکومت نہ ہٹائی گئی تو جینا حرام کر دیں گے اور اگر ہٹا دی اور میری جگہ چوروں اور ڈاکوئوں کو اقتدار دے دیا تو معاف کر دیا جائے گا۔
سچے ترین آدمی کی حکومت ختم ہو گئی، چور اور ڈاکو آ گئے لیکن امریکہ کا دل نرم نہیں ہوا، الٹا اور سخت ہو گیا کہ عالمی ادارے اسی کے اشارے پر قرض دیتے یا روکتے ہیں۔ سچے ترین آدمی کا سچ الٹا کیوں ہو گیا؟ یعنی کیا "سچ" بھی یوٹرن لیا کرتا ہے؟
***
ایک پرانا قصہ کسی میراثی کا سنا ہو گا جسے کیا کرایا قتل مل گیا تھا۔ کسی ظالم نے اپنے مخالف کو قتل کر دیا اور لاش میراثی کے گھر پھینک کر پولیس کو مخبری کر دی۔ پولیس نے چھاپہ مارا اور میراثی کو لاش سمیت دھر لیا۔ تھانے لے جا کر دھلائی کی اور پوچھا، اسے کیوں قتل کیا۔ میراثی روتا ہوا بولا، سرکار میں نے کہاں قتل کیا، مجھے تو کیا کرایا قتل مل گیا۔
موجودہ اتحادی حکومت کو بھی مسمات معیشت بانو کا قتل کیا کرایا مل گیا۔ چودھری شجاعت نے ایک سال سے بھی کچھ مدت اوپر ہوئی یہ بیان دیا تھا کہ حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں اور مزید چھ ماہ بعد اتنے زیادہ برے ہو جائیں گے کہ کوئی بھی شخص وزیر اعظم بننے کیلئے تیار نہیں ہو گا یعنی یہ ملک ناقابل حکمرانی (UN GOVERNABLE) ہو جائے گا۔ وہ چھ مہینے گزرے اوپر سے آٹھ مہینے اور گزر گئے، پلوں کے نیچے سے زائد از ہدف پانی نکل گیا اور اتحادیوں نے وہ حکومت سنبھال لی جو شجاعت کے بقول آج سے 8 ماہ پہلے ہی سنبھالے جانے کے قابل نہیں رہی تھی۔
***
لوگوں کو توقع تھی اور خود حکومت نے دلائی تھی کہ پٹرول اور بجلی تو آئی ایم ایف کی وجہ سے مہنگی ہو رہی ہے، انہیں کسی اور مد میں ریلیف ملے گی۔
لوگوں نے مطالبہ کیا اور اس کالم میں بھی یہ مطالبہ شامل کیا کہ اور نہیں تو گھی کے نرخ ہی کم کر دئیے جائیں جو پانچ سو روپے کلو مل رہا ہے۔ یہاں پھر وہی معاملہ ہوا جو کسی فقیر کے ساتھ ہوا تھا کہ
سخن فہمیٔ عالمِ بالا معلوم شد
حکومت نے مطالبے کا مطلب شاید یہی سمجھا کہ عوام کہہ رہے ہیں کہ جہاں تیل مہنگا کیا، وہیں گھی کے دام بھی بڑھا دو چنانچہ سخن فہم حکومت نے گھی بھی پانچ سو سے بڑھا کر چھ سو روپے کر دیا۔ لگتا ہے، اب ابلی سبزیاں کھانے کا دور آ رہا ہے۔
***
رات ایک ٹی وی چینل پر شاہ محمود قریشی تشریف فرما تھے۔ میزبان نے پوچھا، تیل اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ آپ کے کئے گئے معاہدے ہیں تو قریشی صاحب نے گول مول الفاظ میں نیم تصدیقی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنا سوال داغ کر بات کو ٹال دیا۔
یہ حالیہ اضافہ دراصل اسی آخری معاہدے کا لازمی نتیجہ ہے جس پر عملدرآمد خاں صاحب کی حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں روک دیا تھا اور اس کے نتیجے میں معاہدہ بھی معطل ہو گیا۔ مارچ کی 11 تاریخ کو چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت بننے سے مہینہ بھر پہلے ایمانداروں کی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا ایک بیاں ٹی وی پر اور اگلے د ن اخبار میں آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ تیل کی قیمت اس وقت 240 روپے ہونی چاہیے۔ مطلب یہی طے تھا اور اب جو حکومت نے نرخ 210 روپے کئے ہیں تو ابھی مزید 30 روپے بڑھنے ہیں۔
خاں صاحب کی حکومت نے آتے ہی ڈالر کا نرخ آسمان پر پہنچا دیا۔ اربوں کھربوں کا نقصان تو اسی وقت پاکستان کو ہو گیا تھا، پھر جو ڈومینو افیکٹ Domino Effect کا سلسلہ چلا تو تھمنے کا نام نہیں لیا۔
ایک خبر ملاحظہ فرمائیے۔ ہفتہ بھر پہلے علی پور (مظفر گڑھ) میں ایک محنت کش نے اپنے تین بچے اور بیوی کو قتل کر کے خودکشی کر لی تھی، پولیس نے بتایا ہے کہ گھر کی تلاشی کے دوران تمام برتن خالی ملے۔ آٹے کے برتن میں آٹے کا ذرہ تک نہیں تھا، دال کا دانہ تک کسی برتن میں نہیں ملا، کھانے پینے کی کوئی شے موجود نہیں تھی۔
یعنی بدقسمت خاندان نے موت سے قبل کچھ دن فاقے میں کاٹے ہوں گے۔ یہ ہے وہ غبار کہکشاں جو صادق امین کہلانے والی حکومت چھوڑ کر گئی۔ وہ تو گئی لیکن
سحر نے آتے ہی باطل کیا فسون امید
صبا چراغ تمنا بجھا کے آئی ہے
***
خاں صاحب نے شانگلہ میں فرمایا ہے نیوٹرل حضرات سن لیں، تاریخ ان کے کردار کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
کردار یعنی انہیں پھر سے حکومت نہ دلوانے والا جرم۔ خاں صاحب نے شاید سنا یا پڑھا نہیں کہ تاریخ بھی "نیوٹرل" ہوا کرتی ہے۔ خاں صاحب ایک عدد لانگ مارچ تاریخ کے خلاف بھی کر ہی ڈالیں۔
***
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت نے سود ختم نہ کیا تو 11 جون سے اس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ یعنی صرف ہفتہ بھر کی مہلت ہے
اسے عمران حکومت ختم ہونے کا فائدہ جانئے یا کرامت کہ جماعت کو اچانک یاد آ گیا کہ سود حرام ہے۔ اور یہ کرامت پہلی بار نہیں ہوئی۔ ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور کے خاتمے پر بھی جماعت کو اچانک یہی بات یاد آئی تھی۔ پھر مشرف حکومت ختم ہوئی تو بھی یہی ہوا تھا۔ یادش بخیر اسی کیفیت کو کہا جاتا ہے۔