Jab Sari Dunya Per Musalman Hakoomat Thi
Abdullah Tariq Sohail92 News712
عمران خان کے اس پروگرام کی خوب دھوم ہے جو انہوں نے برسراقتدار آ کر پہلے سودنوں میں پورا کرنا ہے۔ خاص طور پر اس نکتے کی تو دھوم ہی زیادہ ہے کہ وہ سو دنوں میں ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ یہ دھوم پر از حیرت ہے۔ حالانکہ خان صاحب کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ ان کے بائیں نہیں تو زیادہ سے زیادہ دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بائیں ہاتھ سے وہ ایک ارب درخت لگا چکے ہیں، دائیں ہاتھ سے ایک کروڑ نوکریاں کیوں نہیں دے سکتے۔ یہ تو انہوں نے رعایت کی ہے، وہ یہ دعویٰ کرتے کہ پہلے سو دنوں میں وہ پچاس کروڑ نوکریاں دے دیں گے تو بھی آمنا و صدقنا کہے بغیر چارہ ہی کیا تھا۔ آخر کو وہ سرٹیفائیڈ صادق و امین ہیں۔ دھوم مچانے والوں نے البتہ ایک زیادتی کردی۔ ان کا ایک اور بیان بھی قابل دھوم تھا لیکن دھوم ہائے دگر میں گم ہو گیا۔ فرمایا، ایک زمانے میں ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی، ہمیں پھر سے وہ دور لانا ہے۔ واللہ، تاریخ کے سمندر سے کیا قطرہ گم گشتہ ڈھونڈ کر لائے ہیں۔ امانت صداقت میں وہ پہلے ہی مرد اول ہیں، ان کی علمیت بھی اب تو مسلمہ ہو گئی۔ ٭٭٭٭٭ظاہر ہے، خان صاحب نے جس "ساری دنیا" پر مسلمانوں کی حکمرانی کا انکشاف فرمایا، وہ کل تین براعظموں پر محیط ہوئی، یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ۔ اس لیے کہ باقی چار براعظم یعنی انٹارکٹیکا، آسٹریلیا اور دونوں امریکہ ابھی دریافت ہی کہاں ہوئے تھے۔ ان چاروں میں سے اول الذکر بالکل بے آباد، ثانی الذکر بہت بے آباد، اب کہیں جا کے کناروں پر کچھ رونق جمی ہے ورنہ پاکستان سے دس گنا زیادہ، رقبے والے اس ملک کی کل دو کروڑ آبادی کیا معنی رکھتی ہے۔ تو یہ طے ہوا کہ خان صاحب پرانی، تین براعظمی دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی کا ذکر کر رہے ہیں، اس ساری کی ساری پرانی دنیا ہے۔ تو نقشہ رکھنے میں کیا خرابی ہے۔ مسلمانوں کی حکمرانی آنحضورؐ کے دور میں جزیرۃ العرب پر اسلامی امارت سے شروع ہوئی۔ خلافت راشدہ میں یہ حکمرانی ایران اور ترکی کے مشرقی جنوبی علاقوں اور مغرب میں مصر تک پھیل گئی۔ فتوحات کا سیل بنی امیہ کی بادشاہی میں آیا جب ایک طرف پورا ایران، پھر ماوراء النہر کا تک کا علاقہ فتح ہوگیا، وہی جسے آج کل وسط ایشیا کہتے ہیں تو دوسری طرف افریقہ کے شمالی ساحل بھی اس قلمرو میں شامل ہو گئے اور سندھ کا علاقہ بھی، لیکن مصر اور شمالی ساحل کا سارا علاقہ براعظم افریقہ کے پانچ فیصد سے بھی کم رقبہ کا بنتا ہے۔ ایشیا میں بشمول عرب و ایران کا تناسب سارے ایشیا کا محض دس یا پندرہ فیصد بنتا ہے۔ یعنی اوسطاً دو براعظموں کا دس فیصد رقبہ۔ کیا اسے ساری دنیا کہا جاسکتا ہے؟ کیوں نہیں! جو عبقری ایک ارب درخت لگا سکتا ہے وہ ایسا کیوں نہیں کہہ سکتا۔ اچھا، مزے کی ضمنی بات یہ ہے کہ بنو امیہ کے دو ادوار کے بعد بنو عباس کی بادشاہی آئی، اس میں ایک انچ رقبہ بھی فتح نہیں ہوا، الٹا ماوراء النہر کے علاقے اس بادشاہی سے نکل گئے۔ البتہ وہاں حکومت مسلمانوں ہی کی رہی۔ اس دوران ہندوستان کے کچھ حصوں پر وسط ایشیا کے مسلمان قابض ہو گئے۔ مشرق الہند (آج کے انڈونیشیا) کے دو جزیروں جاو اسماٹرا کے علاوہ ملایا کے جزیرہ نما میں بھی مسلمان پھیل گئے۔ بنو امیہ کے دو ادوار یوں کہ پہلا دور حضرت معاویہؓ سے شروع ہو کر ان کے بیٹے یزید۔ پھر ان کے بیٹے معاویہ یزید پر ختم ہوگیا۔ یہ کل حکمرانی 20، 21 سال کی تھی۔ پھر مروان آیا جو حضرت معاویہؓ کے خاندان سے نہیں تھا البتہ بنو امیہ کے قبیلے سے ضرور تھا۔ یوں دو سلطنتیں تھیں۔ تیسری عباسی بادشاہی تھی۔ بنو امیہ میں کچھ حکمران ظالم تھے۔ کچھ کم ظالم، کچھ بہت اچھے جیساکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز، اتنے اچھے کہ ان کے دور کو معنوی طور پر خلافت راشدہ کا حصہ مانا جاتا ہے۔ بنو عباس میں سبھی ظالم تھے، بہت ہی ظالم، سارے کے سارے درجہ اول کے عیاش، بنو امیہ مرد میدان تھے تو بنو عباس مردان خواب گاہ۔ بہرحال، یہ حکمرانی بنو امیہ سے کم رقبے پر محیط تھی۔ یورپ پر نہ بنو امیہ کی حکومت رہی نہ بنو عباس کی۔ البتہ بنو امیہ کے آخری زمانے میں امویوں نے سپین کے جنوبی حصے پر قبضہ کرلیا جسے اندلس کہا جاتا ہے۔ بنو امیہ کی خلافت ختم ہو گئی لیکن یہاں قائم حکومت قرطبہ کی امارت سے پھسل کر سپین کے بیشتر حصے پر محیط ہو گئی اور سو سال قائم رہی۔ پھر عثمانی ترکوں کی خلافت قائم ہوئی جس کی قلمرو سے عربستان کا بیشتر حصہ خارج تھا اور ایران بھی، صرف حجاز اور ساحلی پٹی شامل تھی۔ وسط ایشیا بھی اس کے قبضے میں نہیں رہا البتہ اس نے مغرب میں یورپ کی طرف یلغار کی اور بلقان کے پورے علاقے پر قبضہ کرلیا بلکہ آگے بڑھ کر رومانیہ، بلغاریہ یہاں تک کہ آسٹریا کا آدھا حصہ بھی لے لیا۔ قریب تھا کہ آسٹریا پورے کا پورا قبضے میں آ جاتا کہ وسط ایشیا کا ایک لنگڑا شیطان اس پر ٹوٹ پڑا اور یلغار ادھوری رہ گئی۔ ورنہ آدھا یورپ فتح ہو جاتا۔ رومانہ کی فتح کے دوران ترک مسلمانوں نے کائونٹ ڈریکولا کو اس کی کھوئی ہوئی نوابی دلوائی، پھر اسی سے جنگ بھی ہوئی۔ یہ وہی کائونٹ ڈریکولا ہے جس کی بھوت پریت والی کہانیاں ہیں اور بہت سی فلمیں بھی بنی ہیں۔ وہ بھوت تھا نہ ویمپائر، بہت ظالم تھا، مرنے کے بعد فسانے بن گئے۔ مطلب یہ کہ ساری دنیا پر نہیں، تب کی معلوم دنیا کے دس سے پندرہ فیصد حصے تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ البتہ یہ ہے کہ یہ تینوں سلطنتیں اپنے اپنے دور کی سپرپاور تھیں اور علم و دانش، طب و سائنس کا گہوارہ۔ ٭٭٭٭٭پیپلزپارٹی کے بنی گالہ گروپ کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ نوازشریف پر آئین کا آرٹیکل 6 نہیں لگ سکتا۔ کیوں نہیں لگ سکتا جی؟ جب ان پر اقامہ لگ سکتا ہے تو آرٹیکل 6 کیا، آرٹیکل 106 بھی لگ سکتا ہے۔ نوازشریف کے معاملے میں آئین موم کی طرح نرم ہے، جو شق چاہو لگادو، جو نہ چاہو، وہ بھی لگا دو۔ کوئی رکاوٹ ہے ہی نہیں۔ ٭٭٭٭٭بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے فرمایا ہے کہ صوبوں کو قومی اسمبلی میں سیٹیں آبادی نہیں، رقبے کے حساب سے دی جائیں۔ تو جناب، یہ ہے سنجرانی ماڈل کی عقل و دانش کا ماڈل۔ یہ رہا تو پھر کہیں روس میں بھی ایسا مطالبہ نہ ہو جائے۔ جہاں اکیلے سائبیریا کا رقبہ باقی سارے روسی صوبوں (ریجنوں، جمہوریائوں ) سے زیادہ ہے۔ آبادی سارے سائبیریا کی چند لاکھ، باقی روس کی 5 کروڑ ہے۔ گویا پندرہ کروڑ آبادی کی سیٹیں کم اور بے آباد سائبیریا کی زیادہ ہوں گی۔ سنجرانی ماڈل کی دانش تو ابھی الیکشن کے بعد آنی ہے۔ ویسے جو کچھ ہورہا ہے، بعید نہیں کہ یہ مطالبہ ابھی "ٹیک اپ" ہو جائے اور پھر پنجاب کی سیٹیں بلوچستان سے بھی آدھی ہو جائیں۔"گمراہ" ووٹروں کا ایک علاج تو بہرحال اس سے ہو جائے گا۔