ایم کیو ایم ضیاء الحق نے نہیں بنائی تھی نہ ہی اسٹیبلشمنٹ نے۔ طالب علم لیڈر الطاف حسین نے مہاجر طلبہ کی تنظیم بنائی۔ جس نے حیران کن رفتار سے مقبولیت حاصل کر لی۔ ضیاء الحق نے ماجرا بھانپ لیا اور سندھ میں لسانی اور نسلی جنگ کے اپنے منصوبے کے لئے اسے اپنی نظر میں رکھ لیا اور بعد میں ایسی سہولت کاری کی کہ کراچی سے قومی جماعتوں کو دیس نکالا مل گیا اور شہر طلبہ تنظیم کے مہاجر قومی موومنٹ میں ڈھلنے کے بعد اس کے کنٹرول میں آ گیا۔
ضیاء الحق کا بنیادی مقصد سندھیوں کو کچلنا تھا لیکن مہاجر غم و غصے کا رخ پشتونوں کی طرف بھی مڑ گیا۔ پھر کراچی میں ایسی خونریزی ہوئی کہ وہ دوسرا بیروت بن گیا۔ حالات کا دھارا یوں مڑا کہ مہاجر پٹھان سندھی سہ فریقی جنگ میں چوتھی جہت مہاجر بمقابلہ مہاجر بھی شامل ہو گئی۔ پرویز مشرف نے بھی ضیاء الحق کے اس نفرت پھیلائو، اقتدار بچائو"ایجنڈے کو آگے بڑھایا لیکن اب حالات کی شکل مختلف ہو چکی تھی۔ ایم کیو ایم ایک سپر پاور بن کر مہاجر آبادی ہی کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی۔ 7مئی کا سانحہ پرویز مشرف کے حکم پر برپا ہوا، متحدہ آلہ کار بنی۔
الطاف حسین نے ایک جلسے میں بے قابو نعرے لگا دیے جس کے بعد اس کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگ گئی۔ ساتھ ہی متحدہ ایک کاروان بے مہار بن کر رہ گئی۔ 2018ء کے الیکشن میں اس کی سیٹیں کسی اور کو تحفے میں دے دی گئیں۔ آج بھی کراچی کی سب سے بڑی انتخابی نفرت بکھری ہوئی ایم کیو ایم ہے لیکن اس کی مقبولیت پہلے سے بہرحال کم ہے۔ یہ خلا کون پر کرے گا؟ ابھی واضح نہیں۔ بظاہر طاقتور حلقے یہ بات شاید پسند نہ کریں کہ قومی سیاسی جماعتیں کراچی میں قدم جمائیں۔ کراچی کی سہ بلکہ چہار فریقی کشمکش کے فوائد بہرحال پرکشش ہیں۔ ان فوائد کو سمیٹنے کے لیے ہر کسی کا دل للچاتا ہے مگر طاقت کے مراکز کسی کو بھی لفٹ نہیں کروا رہے۔
٭کراچی کے مہاجر ایک بار پھر قومی دھارے میں آنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ قومی دھارے کے باہر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سیاست میں حالیہ تبدیلی نے جہاں ایم کیو ایم کو ایک موقع دیا ہے، وہیں قومی سیاسی جماعتوں کے لئے بھی کراچی کی اجنبیت ختم کرنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی پر بڑی ذمہ داری عائد ہو گئی جس کی حکومت نے کراچی کو محض اس لئے نظرانداز کر کے مسائل کا گڑھ بنا دیا کہ اس کے عوام کی اکثریت اسے ووٹ نہیں دیتی۔ سیاسی جماعتوں کو ایسے رویے سے دور ہی رہنا چاہیے۔
کراچی کے مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ گنتی سے بھی باہر ہیں۔ وہاں کی سڑکیں کسی جنگ زدہ ملک کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ پیپلز پارٹی اگر مسائل حل کر پائی تو یقینی طور پر اسے وہاں جگہ مل سکتی ہے ورنہ مشکل ہے۔ کراچی میں مسلم لیگ ن نے وفاقی سطح پر اچھے منصوبے دیے حالانکہ اسے کراچی سے الیکشن جیتنے کی کم ہی امید تھی۔ اقامہ والے انقلاب میں مسلم لیگ کی حکومت ختم ہو گئی اور جو نئے صاحبان آئے انہوں نے نواز حکومت کے منصوبے ختم کر کے کراچی کی سیہ بختی پر مہر لگا دی۔
٭کراچی ایک طرح سے بے مثال شہر ہے وہ اسی طرح سے منی پاکستان ہے جس طرح سے ممبئی منی بھارت لیکن ممبئی سے کراچی اس طرح ممتاز ہے کہ کراچی محض منی پاکستان نہیں۔ بھارت بالخصوص شمالی اور وسطی بھارت کے ہر حصے ہر شہر کے مسلمان کراچی میں آباد ہیں۔ یو پی، بہار مدھیہ پردیش اور راجستھان کا تو کوئی ایک شہر بھی ایسا نہیں جس کے لوگ کراچی میں آباد نہ ہوں۔
پھر بہار، اڑیسہ، گجرات اور حیدر آباد و دکن (سابق ریاست، اب تلنگانہ اور اندھرا) کے بہت سے شہروں کے لوگ بھی کراچی میں آباد ہیں۔ ان لوگوں کی الگ الگ آبادی وہاں کی تہذیب کے اپنی اپنی جگہ گلستان ہیں۔ جو پاکستانی سرزمین میں آ کر اپنی نیرنگی میں اور بھی بڑھ گئے بھارت کے ممبئی کی یہ حیثیت نہیں کراچی گویا برصغیر کی تمام مسلم اقوام کی تہذیبوں اور ثقافتوں کا ایک بے مثان چمنستان ہے۔ جسے ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے تیزذہن کی نظر لگ گئی اور یہ چمنستان پھولوں کے بجائے خون سے رنگین ہو گیا۔
اب وقفہ ہے اور وقفہ کے بعد نئی بہار کے امکانات ہیں یہ بہار آ سکتی ہے بشرطیکہ اہل اختیار کراچی کے معاملات کو مزید تجربات کی نذر نہ کریں اور پیپلز پارٹی بھی کراچی کے لوگوں کو ووٹ دینے کی امید ایک طرف رکھ کر برابر کا شہری سمجھے۔ نئی مخلوط حکومت میں اس بات کا مثبت تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کو بھی اپنے اپنے حصے کی اپنی اپنی توفیق کے مطابق ادائیگی کرنا ہو گی۔
کراچی منی پاکستان ہے اس کی خوشحالی سے پورے ملک کی خوشی کے راستے بھی کھلیں گے۔ سندھی زندہ باد، مہاجر زندہ باد، بلوچ زندہ باد، پٹھان زندہ باد اور پنجابی زندہ باد کے نعرے ایک ساتھ لگیں گے تو پاکستان زندہ باد سنائی دے گا۔