Kokab Haiwan
Abdullah Tariq Sohail92 News590
دنیا میں کتنے حشرات الارض ہوں گے؟ آپ کا جواب ہو گا، کئی ارب یا شاید کئی کھرب۔ لیکن "نیشنل جیو گرافک" نے جو گنتی بتائی ہے اسے اعداد میں لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ یوں سمجھئے کہ اگر لکھا جائے تو کوئی سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ گنتی کیا ہے۔ اپنی تازہ تحقیق میں نیشنل جیو گرافک نے لکھا ہے کہ دنیا میں اتنے حشرات ہیں کہ سب کو اکٹھا کر کے سارے انسانوں میں بانٹ دیا جائے تو ہر آدمی کے حصے میں ایک ارب 40کروڑ حشرات آئیں گے۔ اب اس گنتی کو سات ارب سے ضرب دے لیجیے، اگر آپ کا کیلکو لیٹر اتنی ضرب کا حاصل ضرب بتا سکے۔ نیشنل جیو گرافک کی تحقیق کا موضوع تو کچھ اور ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ ہر قسم کے حشرات کا وجود انسانی اور ارضی زندگی کے لیے ایسا لازمہ ہے کہ حشرات نہ رہیں تو دنیا سے زندگی ہی ختم ہو جائے۔ یہ وہی بات ہے قرآن پاک میں جس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا نے کوئی بھی شے بے مقصد پیدا نہیں کی۔ یہ تو اس کا موضوع تھا، اس کالم کا موضوع دنیا پر جانداروں کی تعداد اور جانداروں کی "نفسیاتی کاملیت" ہے لیکن گھبرائیے مت، یہ کوئی علمی مقالہ نہیں۔ محض ایک ہلکی پھلکی بات "نفسیاتی کاملیت" کے حوالے سے ہو گی۔ وہ بھی چند سطروں میں لیکن زیادہ دلچسپ بات گنتی کی ہے کہ دنیا میں جانوروں کی آبادی کتنی ہے۔ انسانی آبادی گننے کو اردو میں مردم شماری کہتے ہیں اور انگریزی میں سینسCensus۔ چنانچہ ایک مرتبہ انگریزی میں خبر آئی کہ حکومت نے کتوں کا سینسس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اردو اخبار کے سب ایڈیٹر نے اس لفظ کا ترجمہ ڈکشنری میں دیکھا اور یوں خبر بنائی کہ حکومت نے کتوں کی مردم شماری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فاضل نیوز ایڈیٹر نے یہ خبر جوں کی توں چھاپ دی۔ تو یوں سمجھیے کہ دنیا میں جانوروں کی مردم شماری کتنی ہو گی۔؟ بڑے بڑے جانوروں مثلاً شیر، چیتا، ہاتھی، گینڈا کی مردم شماری سب سے آسان ہے۔ انسانوں نے اتنا شکار کیا کہ بے چارے چند ہزار کی تعداد میں رہ گئے ہیں۔ لیکن چھوٹے جانداروں کی گنتی ایسی مشکل ہے کہ بڑے بڑے سائنسی اداروں حتیٰ کہ نیشنل جیو گرافک والوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ مثلاً پرندوں کو لے لیجیے۔ سائنس دانوں نے معلوم کیا ہے کہ پرندوں کی دس ہزار انواع باقی رہ گئی ہیں، کئی سو انواع حالیہ عرصے میں ناپید (Extict)ہو گئی ہیں۔ نوع میں ملتے جلتے جانور ہوتے ہیں۔ مثلاً شیر ایک نوع ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ہر نوع کے پرندے کروڑوں میں، بعض اربوں میں اور کچھ لاکھوں میں ہیں لیکن ان کی گنتی ناممکن ہے۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنے بھی پرندے ہیں وہ سات سو ارب سے بہرحال زیادہ ہوں گے حشرات کیڑے مکوڑوں کو کہتے ہیں۔ ان میں چیونٹی، مکڑی، مچھر، گھاس گھوڑے وغیرہ شامل ہیں۔ بعض پرانی اردو ریڈروں میں چھپکلی کو بھی حشرات میں شامل کیا گیا ہے جو قطعی غلط ہے۔ چھپکلی ریپٹائلز میں شامل ہے ان میں سے صرف ایک حشر یعنی مکڑی کی دنیا بھر میں چالیس ہزار انواع ہیں۔ کل گنتی کھرب ہا کھرب میں ہے اور سائنس دانوں نے ایک آسان اندازہ یوں بتایا ہے کہ آج اگر ساری مکڑیاں فیصلہ کر لیں کہ وہ کچھ اور نہیں صرف انسانوں کو کھائیں گی تو وہ ایک سال کے اندر اندر سارے کے سارے سات ارب انسان کھا جائیں گی۔ مکڑیاں ہمارے ہاں مچھر مکھی کھاتی ہیں لیکن دنیا بھر میں بہت بڑی بڑی مکڑیاں بھی ہیں جو خرگوش، سانپ سے لے کر کبوتر چڑیا تک کوئی چھوٹا جانور نہیں چھوڑتیں۔ جانوروں کی کل انواع 87لاکھ ہیں۔ اور ہم جانوروں سے مراد وہ مخلوق لیتے ہیں جو خشکی پر آباد ہے۔ لیکن اس سے سینکڑوں گنا جانور سمندروں میں آباد ہیں۔ آپ کہیں گے سینکڑوں گنا کیسے۔ سمندر خشکی سے محض تین گنا زیادہ ہیں تو سمندری مخلوق بھی تین گنا ہو گی؟ لیکن یہ صحیح حساب نہیں ہے۔ خشکی میں زیادہ تررقبہ بے آباد ہے۔ مثلاً ہر براعظم میں (یورپ کے سوا) بڑے بڑے صحرا ہیں۔ افریقہ آدھے سے زیادہ صحرا ہے، آسٹریلیا کم و بیش سارے کا سارا۔ کینیڈا ایک باریک سی پٹی کو چھوڑ کر سارے کا سارا برف کا سمندر ہے، یہی حال روس کا ہے۔ اس بے آباد رقبے میں انسان اور جانور آباد تو ہیں لیکن بہت ہی کم لیکن سمندر کا چپہ چپہ آباد ہے، کوئی مربع میٹر رقبہ خالی نہیں۔ سمندر کے پانی میں کھربوں مخلوق ہے تو اس سے بھی زیادہ سمندر کی تہہ میں جو خود ایک زمین ہے۔ حشرات میں کنکھجورا بھی شامل ہے۔ ہمارے روز مرہ کے معمول میں یہ کوئی جاندار شے ہی نہیں، نظر آتے ہی مسل ڈالتے ہیں لیکن وہ نفسیاتی طور پر اتنا ہی کامل وجود ہے جتنا کہ خود انسان۔ نیشنل جیو گرافک والوں نے کچھ ماہ پہلے ایک کنکھجوری ماں کی کلوزاپ ویڈیو جاری کی تھی۔ اس کے بہت سے بچے اس سے لپٹے ہوئے تھے، وہ کسی کو پیار سے لپٹا رہی تھی۔ کسی کے منہ سے منہ مار رہی تھی(جیسے بوسہ دے رہی ہو) کسی کو اپنے ہاتھوں سے سہلا رہی تھی۔ وہ اپنے ہر ایک بچے کو الگ الگ حیثیت سے پہچان رہی تھی۔ شہد کی مکھی تو اور بھی چھوٹی مخلوق ہے۔ ایک مکھی کہیں پھولوں کا تختہ دیکھتی ہے تو چھتے کے پاس آ کر رقص کرتی ہے۔ اس رقص کے اشارے دوسری مکھیوں کو صاف بتا دیتے ہیں کہ یہ تختہ یہاں سے کتنے کلو میٹر اور کس سمت میں ہے اور یہ کتنا بڑا ہے۔ چیونٹی مکھی سے بھی سو گنا چھوٹی مخلوق ہے اس کی زبان کے کیا کہنے۔ اشاروں اور سگنلز کی اس کی زبان سائنس داں خوب سمجھنے لگے ہیں۔ ایک چیونٹی کیا، سو سال کے تجربات کے بعد سائنس دان ہر جاندار کی مختلف آوازوں کا "ترجمہ" کرنے کے قابل ہو گئے ہیں اور سگنلز کا بھی۔ حضرت سلیمان ؑ کو خدا نے جانوروں کی بولی کا یہ علم کسی تجربے کے بغیر ہی کہیں بہتر اور کامل شکل میں عطا فرما دیا تھا۔ یہ ان کا معجزہ تھا۔ ہمارے ہاں سر سید، غلام احمد پرویز صاحبان اور ان کے ہم دانش حضرات نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی تو کہہ دیا کہ یہ محض ایک علامتی بات ہے اور چیونٹیوں کا وہ قبیلہ جس کے سردار نے کہا تھا کہ حضرت سلیمان کا لشکر آ رہا ہے، بلوں میں گھس جائو تو وہ انسانوں کا قبیلہ تھا اور ہد ہد پرندہ نہیں، ایک سردار کا نام تھا۔ یعنی معجزے سے صاف انکار کر دیا جب یہ حضرات اس قسم کے تفسیری کارنامے کر رہے تھے سائنس دانوں کی تحقیقات سامنے نہیں آئی تھیں۔ آ جاتیں تو یہ معجزے کا انکار نہ کرتے یہ وہ اہل دانش ہیں جو سائنسی دلیل دیکھ کر وحی کے ٹھیک یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں اور ابھی تو ابتدا ہے، سائنس دان کہتے ہیں وہ جلد ہی جانوروں کی بولی کی پوری "لغت" مرتب کر لیں گے۔ ہر جاندار خدا کی خاص حکمت کے تحت موجود ہے۔ ہر جاندار میں روح ہے اور روح مخلوق نہیں۔ رب کا امر ہے۔ جاندار کامل نفسیاتی وجود ہے۔ دانش کی سطح الگ الگ ہے لیکن واردات نفسی و نفسیاتی ایک ہی ہے۔ خدا کی مرضی، وہ جس روح کو جو چاہے قالب بخشی دے۔