میڈیا میں عمران خان کی زمان پارک والی رہائش گاہ پر جو سیکورٹی لگائی گئی اور لگائی جاتی دکھائی جا رہی ہے، مجھے تو لگتا ہے روس کے صدر پیوٹن کو بھی ویسی سکیورٹی میسر نہیں۔ چھ سو کے لگ بھگ تو پنجاب پولیس کے اہلکار ہیں، کئی سو کے پی کے سے آئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ڈیڑھ سو افراد کے پی کے کے وزیر "دھیں پٹاس" علی امین گنڈاپور نے اپنے ذاتی سٹاف سے دئیے ہیں۔ کمالِ رشک کا مقام ہے، علی امین گنڈاپوری کے پاس بھی اتنی بڑی "سکیورٹی فورس" ہے۔
زمان پاک کے گرد ان اہلکاروں نے جو جدید اسلحہ ا ور آلات سے لیس ہیں، ایک زبردست ناقابل تسخیر قسم کی انسانی دیوار کھڑی کر دی ہے لیکن یہ اکیلی دیوار نہیں ہے، اس کے پار ایک ریت کی فصیل بھی ہے۔ شاید قاتلانہ حملے کرنے والے ا س بار توپ خانہ لے کر آئیں گے۔ یہ دیوار ان گولوں کو اپنے اندر جذب کر لے گی۔ پھر گھر کی اصلی دیوار ہے جسے دس فٹ سے بھی زیادہ اونچا کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد کمروں کی دیواریں ہیں جن کی تمام کھڑکیاں، روشن دان اور دروازے بلٹ پروف کر دئیے گئے ہیں۔
خان صاحب لگ بھگ ایک سو بار اپنے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ موت سے ڈرتے ہیں نہ قتل ہونے کی دھمکی سے۔ وہ کہا کرتے ہیں موت سے کیا ڈرنا، میں نے موت کا ڈر دل سے نکال دیا، آپ بھی (عوام) یہ ڈر دل سے نکال دیں۔
بے خوفی کے اس عالم میں زمان پارک مازندراں کے کوہ دماوند کی چوٹی سے بھی زیادہ محفوظ مقام بن گیا ہے اور پھر بھی خان صاحب نے کل ہی ایک بار پھر خود پر نئے قاتلانہ حملے بلکہ حملوں کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
خان صاحب کی طرح ان کے دیوانے بھی موت سے نہیں ڈرتے، سوشل میڈیا اس بات کا گواہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب نے تو کوہِ دماوند کھڑا کر لیا، یہ دیوانے کتنا بندوبست کر پاتے ہیں۔ بندوبست تو انہوں نے کرنا ہی کرنا ہے کہ خان صاحب کی طرح موت سے وہ بھی نہیں ڈرتے اور موت تو اک دن آنی ہی آنی ہے۔
***
اس حفاظتی بندوبست کی خبروں کی ہوشربا تفصیلات پڑھ کر نامور امریکی کہانی کار ایڈگرامین پو کی ایک مشہور کہانی یاد آ گئی۔ یہ ان کی مقبول ترین کہانیوں میں سرفہرست سمجھی جاتی ہے، بہت ڈراؤنی ہے، آپ نے اگر نہیں پڑھی تو امید ہے پڑھنے سے گریز فرمائیں گے اور اگر پہلے ہی پڑھ چکے ہیں تو بھی امید ہے کہ دوبارہ مطالعے کا خیال دل میں نہیں لائیں گے۔ کہانی کا عنوان ہے، دی ماسک آف ریڈ ڈیتھ۔ اس میں سات حفاظتی حصاروں کا ذکر ہے اور ایک آنے والے مہمان کا بھی۔
قرآن پاک کی سورة النّسا کی آیت مقدسہ نمبر 78 البتہ ملاحظہ فرما لینا کار ثواب ہو گا، وہی جس میں"لو کنتم فی بروجٍ مشیدّہ کا ذکر ہے۔ یعنی مضبوط قلعوں کا۔ اللہ خان صاحب سمیت سب کو اپنی امان میں رکھے لیکن جو ہونی ہے، اسے بروجِ مشیدّہ بھی نہیں روک سکتے۔ یہی تقدیر کا نظام اور حکمِ الٰہی ہے۔
***
پی ٹی آئی کے سبکدوش رہنما فیصل واڈوا نے کہا ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ میں جتنے لوگ شریک ہیں، ان سے زیادہ لوگ تو میرے ملازم ہیں۔
کیا مطلب؟ واڈوا صاحب کے ملازموں کی تعداد 500 سے زیادہ ہے؟ لگتا ہے، دونوں طرف سے کچھ مبالغہ ہے۔ خیر، آج خان صاحب راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اعلان ہونے کے بعد مارچ کے شرکاءکی تعداد واڈوا صاحب کے ملازموں کی تعداد سے لازماً بڑھ جائے گی۔
ادھر مارچ بدستور ایک بھٹکے اور بکھرے ہوئے کاررواں کی تصویر بنا ہوا ہے، ایک ناول کا نام یاد آ رہا ہے، بھٹکے ہوؤں کی داستاں۔ یہ ناول کبھی پڑھا نہیں، صرف اس کا اشتہار دیکھا جو کسی ماہنامے میں آیا کرتا تھا۔ چونکہ پڑھا نہیں، اس لئے نہیں بتا سکتا کہ بالآخر بھٹکے ہوؤں کا انجام کیا ہوا۔
خان صاحب پر یہ الزام حال ہی میں لگا ہے کہ و ہ ایک ہی تقریر ہر بار کر ڈالتے ہیں، کچھ نیا نہیں ہوتا ہے، سب پرانی باتیں دہرا دیتے ہیں۔ یہ الزام غلط ہے۔ خان صاحب نے کل ہی کچھ نیا پیش کیا ہے اور متن کی تبدیلی بھی کی ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے وہ یہ بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ سپرپاور محض ایک خدا کی ذات ہے، اس کے علاوہ کوئی سپرپاور نہیں ہے اور امریکہ تو بالکل نہیں ہے، اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن کل ہی انہوں نے فرانسیسی ٹی وی کو بتایا کہ سپرپاور امریکہ ہے چنانچہ اس کے ساتھ ہم نے اپنے تعلقات ٹھیک رکھنے ہیں۔
سپرپاور کی یہ "تبدیلی" متن کی اہم تبدیلی ہے جسے ناقدین نے نوٹ نہیں فرمایا۔ اس سے پہلے بھی وہ متن کی دو اہم تبدیلیاں کر چکے ہیں۔ ایک امریکی سازش تھیوری سے رجوع، جس پر امریکی دفتر خارجہ نے "دیکھا ناں" کے انداز میں اظہار مسرّت کیا ہے۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان نے عمران خان کے اس "رجوع" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سازشی بیانیہ جھوٹا ہے۔ دوسری ترمیم یہ کی کہ چیف کا تقرر نہیں کرنے دیں گے کے مزاحمتی بیان کو جسے مرضی لگا لو کے مفاہمتی اعلان میں بدل دیا۔
امریکہ سے دوستی کے بارے میں ایک ہفتہ کے اندر اندر انہوں نے دو بیان دئیے۔ لگتا ہے اب وہ خودسپردگی کے عالم میں چلے گئے
سجن لاگی توری لگن من ماں
تانا دھر دھرنا، تانا تیرے ناں!
***
گھڑی کی چوری یا فروخت کا جو بھی معاملہ چل رہا ہے، "ہٹ" بلکہ سپرہٹ جا رہا ہے۔ خان کی عالمی اور ملکی شہرت میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ 92 کا ورلڈ کپ، سونامی مارچ اور دیگر سب واقعات ہیچ ہو گئے۔ یہی نہیں، پاکستان کی عالمی نیک نامی بھی کہاں سے کہاں جا پہنچی۔
پی ٹی آئی مخالفانہ مہم کا کوئی ایک جواب نہیں دے رہی۔ لائے ہیں بزم یارسے لوگ "جواب" الگ الگ والا منظر ہے۔ کوئی کہتا ہے، دکھائی جانچ والی گھڑی اصلی نہیں نقلی ہے۔ کوئی کہتا ہے، دبئی میں تو گھڑی بیچی ہی نہیں، وہ تو اسلام آباد میں بیچی۔ درجن بھر جواب ہیں لیکن دو جواب زیادہ مزے کے ہیں، ایک یہ کہ گھڑی تو بیچی لیکن وصول کردہ رقم رفاہی کاموں میں لگا دی۔ دوسرا یہ کہ اجی، یہ بھی کوئی بڑی رقم ہے، اتنی بلکہ اس سے زیادہ کرپشن تو کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ہوتی ہے، اتنی سی کرپشن پر خواہ مخواہ طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔
خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں اسی طرح کے مزے مزے کے اور جواب بھی آنے والے ہیں۔