Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Marka Bala Khez

Marka Bala Khez

لیجیے وہ دن آ پہنچا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے اہم تاریخ اسی دن لکھی جائے گی۔ بس آج کا دن بیچ میں ہے کل الیکشن ہو گا جس پر بہت افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ یہ وہ الیکشن ہے جس کے ہونے سے پہلے ہی تقریباً عالمی شہرت کے تمام اخبارات اور جریدوں نے منفی تبصرے کئے ہیں، پاکستان میں آزادی صحافت کی سطح پہلی بار اتنی اونچی ہوئی ہے کہ ان میں سے کسی بھی اخبار جریدے کی رپورٹ پاکستان کے پریس میں ایک سطر کی جگہ بھی نہیں پا سکی۔ ہو سکتا ہے سب کی زبان اتنی غیر پارلیمانی ہو کہ اسے نقل کرنا ممکن نہ ہو۔ بہرحال ان رپورٹوں کو بہت سے قارئین نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر حرف بحرف پڑھ لیا ہے۔ ان میں نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، دی ٹائمز، گارڈین، فنانشل ٹائمز، بلومبرگ وغیرہ شامل ہیں۔ سینٹ میں دونوں جماعتوں نے کہا ہے کہ انتخابات کی ساکھ خراب ہو چکی۔ جلسہ ہائے عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے بھی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ بلاول کا کہنا ہے کہ یہ انجینئرڈ انتخابات ہیں جو وفاق کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ کٹھ پتلی حکومت لانے کی سازش ہو رہی ہے۔ مجلس عمل اور بلوچ پارٹیوں نے بھی وفاق کو لاحق خطرات کا اظہار کیا ہے شہباز شریف نے کہا ہے کہ دھاندلی ہوئی تو عوامی سیلاب کو نہیں روک سکوں گا۔ افواہیں کچھ یوں ہیں کہ پولنگ کے عمل کو ان کیمرہ بنانے کا آہنی انتظام کر لیا گیا ہے۔ یہ خبر بھی ہے کہ انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کا اعلان کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہو گا۔ نہ ریٹرننگ آفیسر کو، نہ کسی اور کو۔ سرکاری اعلان مرکزی کنٹرول روم سے کیا جائے گا۔ ٭٭٭٭٭خدا کرے یہ افواہیں سچ نہ ہوں۔ ویسے پیپلز پارٹی کو تحریک سے باز رکھنے کے لیے سندھ میں اکثریت اسے دے دی جائے گی جس کے بعد اس کے احتجاج بیانات تک ہی محدود رہیں گے۔ کرم فرمائوں کو یقین ہے کہ شہباز شریف بھی بیانات پر گزارا کریں گے۔ ان کے اس بیان کا مطلب آپ کچھ بھی لے سکتے ہیں کہ عوامی سیلاب کو روک نہیں سکوں گا۔ یعنی میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گا۔ یہ مطلب بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن تحریکیں نہ چلیں تو بھی ایک خود کار عمل بعض اوقات شروع ہو جایا کرتا ہے قیادت کا اکثر اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ اسے "چین ری ایکشن" بھی کر سکتے ہیں اور یہ ڈومینو افیکٹ، میں بھی ڈھل جایا کرتا ہے۔ بہت کچھ بظاہر غیر متعلق بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭عمران خان نے کہا ہے کہ کل الیکشن میں دھاندلی نہیں ہو گی۔ صفایا ہو گا۔ دھاندلی بہت زیادہ ہو تو دھاندلا کہتے ہیں اور دھاندلا بہت بڑا ہو تو اسے کیا کہتے ہیں؟ عمران خان نے بتایا۔ گویا کل آپریشن صفایا۔ ہونے کا بہت امکان ہے اس صورتحال میں کئی ہفتوں سے بلکہ جب سے انتخابی عمل شروع ہوا ہے تب سے کئی اخبار نویس اور قلمکار ٹی وی پر بھی اور اپنی تحریروں میں بھی یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ عدم استحکام پھیلے گا۔ ملاحظہ کیجیے، یہ کسی نے نہیں کہا کہ عدم استحکام پیدا ہو گا بلکہ کہا ہے کہ پھیلے گا شدت اختیار کرے گا۔ یعنی عدم استحکام تو پہلے سے موجود ہے کل کے بعد اس کا اضافہ شدہ ایڈیشن سامنے آئے گا۔ عدم استحکام کیا بلا ہے بیشتر دنیا نہیں جانتی لیکن اس بلا سے ہماری قدیمی آشنائی ہے۔ آشنائی کیا۔ یہ عشروں سے ہمارے گھر آنگن کی مستقل رونق ہے۔ جب سے یہ بلا نازل ہوئی ہے اس نے جانے کا نام ہی نہیں لیا۔ اتنے عشروں میں یہ کتنے ہی انڈے بچے دے چکی۔ اسے ہم سے عشق ہو گیا ہے اور ہمیں اس سے، اور عشق بھی ایسا ویسا نہیں، بلا کا عشق۔ یعنی بلا سے عشق بلا خیز۔ اگر کبھی اس نے جانا بھی چاہا تو ہم نے آہ و زاری اور سعی مسلسل سے اسے روک لیا اور اب یہ بلا صفت بلا میں بدلنے جا رہی ہے اور شاید یہی مطلوب و مقصود مومن ٹھہرا ہے۔ ٭٭٭٭٭عدم استحکام سے متعلق اکثر تجزیوں میں حیرت ظاہر کی جاتی ہے کہ پنجاب پہلی بار مزاحمت کے موڈ میں ہے۔ مزاحمت ابھی کہاں، فی الحال تو پنجاب اظہار خیال کر رہا ہے لیکن یہ ہے کہ مزاحمت کے آثار بھی صاف اور عیاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس "ہونی" کی پیش گوئی عرصہ دراز پہلے مرحوم خان عبدالولی خان نے کر دی تھی جو سرکاری طور پر کئی برس تک غدار رہے تھے پھر سرکاری طور پر ہی تاحین حیات محب وطن قرار پائے تھے۔ انہوں نے کہا تھا سٹیٹس کو کے خلاف جس دن پنجاب نے بغاوت کی، پاکستان ٹھیک معنوں میں پاکستان بن جائے گا اب گویا ان حالات کا دروازہ کھلتا نظر آتا ہے اپنے حقوق کے حوالے سے جس کے کھلنے کا انتظار چھوٹے صوبوں کے دانشوروں کو بھی ہے۔ وہ اس انتظار کا اظہار اب زیادہ شدت سے کرنے لگے ہیں۔ کبھی سندھی اخبارات پڑھ کر دیکھیے۔ ذرا غور سے حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا نہیں ہے کہ سٹیٹس کو، اس بار پہلی بار اپنی پوری قوت آزما رہا ہے یہاں تک کہ وہ جسے جسم کی محفوظ توانائی بھی کہا جاتا ہے جو عالم حالات میں کوشش کرنے پر بھی بروئے کار نہیں آئی لیکن خوف انتہا کا ہو تو از خود حرکت میں آ جاتی ہیں۔ 80سال کا بڈھا بھی جواں نہ سہی، ادھیڑ عمری والی رفتار سے دوڑ پڑتا ہے۔ سٹیٹس کو نے وسیلہ کار عمران خان کو بنایا ہے اور کچھ قدسی صفت گروہوں کو بھی۔ پاکستان تبدیلی کی دہلیز پر ہے یا اس کے قریب تر ہے۔ خدانخواستہ ملک میں لبرل یا سیکولر رجحانات طاقتور ہو گئے تو اس کا ثواب انہی قدسی صفت گروہوں کو جائے گا وہ یہ ثواب کسی اور کی نذر کر دیں تو الگ بات ہے لیکن ردعمل اپنے نتائج آپ دکھاتا ہے اور جس طرح دکھاتا ہے، تاریخ کی کتاب اسے اسی طرح لکھ لیتی ہے۔ سٹیٹس کو اب بھی بہت طاقتور ہے عالمی اسٹیبلشمنٹ اس کی پشت پر ہے جس نے اس سے وہ سارے مطالبات منوا لیے ہیں جو سابق حکومت مسترد کر چکی تھی ڈالر 130روپے کا ہو چکا 150کا ہونے کی بات طے ہو رہی ہے قرضوں کی مالیت اس کے نتیجے میں چند لمحوں میں کھربوں ڈالر کا اضافہ ہو گیاہے شرح سود پانچ برسوں سے ایک ہی جگہ ٹکی ہوئی تھی۔ یکدم ایک فیصد بڑھا کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راہ فرار دکھا دی گئی ہے جتنی مہنگائی پانچ برسوں میں نہیں ہوئی اس سے زیادہ محض ایک مہینے میں ہو گئی ہے آئی ایم ایف کا شکنجہ پہلے کئی گنا سختی کے ساتھ ہماری گردن پر کسے جانے کی پر امیدی میں بھی کسی کو شک نہیں رہا۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ سٹیٹس کو کی بھر پورمدد کے لیے موجود ہے یوں معرکہ کے نتائج "گریٹ ڈسٹربنس" کی نوید سنا رہے ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran