Mashriq Wusta Aandhi Arahi Hai
Abdullah Tariq Sohail92 News636
جیسا کہ توقع تھی، مشرق وسطیٰ میں اہم واقعات کی بنیاد پڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یہ واقعات ایران کو براہ راست متاثر کریں گے اور پاکستان ایران کا قریبی ہمسایہ ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ محض وزیر دفاع سے مشورہ کر کے دشمن سے جنگ کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہاں دشمن سے مراد شام میں ایرانی موجودگی ہے۔ فی الحال ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرے گا۔ ایران کا استحکام اسرائیل کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ شام میں بشار حکومت کا استحکام لیکن شام میں ایران کی موجودگی اسرائیل کو قبول نہیں اور پچھلے دنوں اسرائیلی اور امریکی حکام کے درمیان ملاقاتوں میں یہ طے پایا ہے کہ شام میں ایرانی موجودگی، کم از کم ایک حد سے زیادہ قابل قبول نہیں اور اسرائیل اسے روکنے کے لیے جیسی بھی کارروائی کرنا چاہے کر سکتا ہے، امریکہ اس کی پشت پر موجود ہو گا اور اس حوالے سے روس کی مخالفت کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔ مذکورہ اختیار وزیر اعظم کو دینے سے تین چار دن پہلے اسرائیل نے شام میں دو مختلف مقامات یعنی حلب اور حما کے نزدیک ایران کے تین اڈے تباہ کر دیے۔ ان حملوں میں میزائلوں کی ایک بڑی کھیپ، ٹیکنالوجی کے آلات اور فوجی گاڑیاں تباہ ہوئیں جبکہ 48فوجی مارے گئے جن میں سے 36کا تعلق پاسداران انقلاب سے تھا۔ ایران اور شام کا میزائل ڈیفنس سسٹم ان حملوں کو نہیں روک سکا اور روس کا جو قدرے بہتر اور موثر نظام شام میں موجود ہے، وہ مدد کو نہیں آیا۔ روس جانتا ہے کہ اسے کہاں اور کتنی مداخلت کرنی ہے اور کتنی نہیں۔ گزشتہ ماہ بھی اسرائیل نے ایسے دو حملے دو مختلف تاریخوں میں کئے تھے اور ایرانی تنصیبات تباہ کر دی تھیں۔ امریکہ اور اسرائیل شام میں ایران کو قدم نہیں جمانے دیں گے، یہ طے لگتا ہے۔ لیکن پھر حالات کس طرف جائیں گے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کے حملے کے بعد ایران نے کہا تھا کہ وہ اس کا قطعی جواب دے گا لیکن یہ جواب نہیں دیا گیا۔ حالیہ حملوں کو بھی تین دن ہو گئے، ایران کی طرف سے جوابی کارروائی کا کوئی اشارہ نہیں۔ دراصل ایران اسرائیل کو شام کی سرزمین سے جواب دے ہی نہیں سکتا۔ ایران فضائی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے جہاز اسرائیل تک مار کرنے کے قابل نہیں نہ ہی وہ اسرائیل کی طیارہ شکن بیڑیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف صرف میزائل چلائے جا سکتے ہیں اور اسرائیل ایران کو میزائل نصب کرنے ہی نہیں دے رہا۔ ایران کے پاس ایک ہی قابل عمل راستہ ہے اور وہ ہے جنوبی لبنان سے اسرائیل کو میزائل حملوں کا نشانہ بنانا۔ یہاں حزب اللہ کے پاس بڑی تعداد میں میزائل ہیں لیکن حزب نے ٹھوس قسم کا میزائل حملہ کیا تو لبنان پر جوابی حملہ ہو گا۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ حزب کے میزائل اسرائیلی ڈیفنس شیلڈ کو توڑ پائیں گے لیکن جوابی کارروائی میں لبنان کو تباہی کا سامنا ہو گا اور یہاں فرقہ وارانہ فسادات بھی پھوٹ پڑیں گے۔ روس صرف بشار حکومت کو مستحکم کرنے کی حد تک مداخلت جاری رکھے گا۔ ایرانی تنصیبات کا دفاع کرنے کا اس کا ذرا بھی ارادہ نہیں ہے۔ دوسری اہم تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ اسرائیل نے بقول اس کے ایسے شواہد امریکہ کو دیئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کی تھی۔ کوئی تیسری طاقت حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی اسرائیل کے دیے گئے ثبوتوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن امریکہ نے دیکھتے ہی یہ ثبوت درست مان لیے ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ محض ایک ڈرامہ کھڑا کیا ہے اور مقصد ایران کے خلاف پابندیاں لگانا ہے۔ چین روس اور یورپی یونین کے ملک ان پابندیوں کے خلاف ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ طاقتیں امریکہ کو روک پائیں گی؟ بظاہر ایسا امکان نہیں ہے کہ کوئی موثر مزاحمت ان طاقتوں کی طرف سے ہو۔ یہاں اسرائیل اور امریکہ کے درمیان مفادات میں کچھ فرق بھی پڑے گا۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ ایران کی موجودہ حکومت ختم ہو لیکن امریکی پابندیوں سے ایران کے اندر تبدیلی کا عمل تیز ہو جائے گا اور اسرائیل کے برعکس امریکہ ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران میں حکومت بدلی گئی تو عرب ممالک جو اس وقت ایرانی ڈر سے اس کے قریب آ رہے ہیں، پھر سے اپنی اسرائیل مخالف پالیسی (قبل از1973ء کی) پر واپس چلے جائیں گے۔ امریکہ کے لیے یہ بات اتنی اہم نہیں۔ ایران میں عوامی بے چینی اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ انقلاب کے چار عشروں بعد ایسی صورتحال ہے جو پہلے کبھی نہیں تھی۔ غربت اس انتہا پر ہے کہ خود کلرجی کے حامی بھی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ حکمرانوں کی کرپشن کے قصے پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس پھیلائو کی وجہ سوشل میڈیا ہے جو کسی نہ کسی انداز میں عوام کی رسائی میں ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سخت سرکاری کنٹرول ہونے کا ایک نقصان یہ ہے کہ لوگ افواہ یا مبالغے والی خبر کو بھی سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ سابق صدر احمدی نژاد اور موجودہ حکمران کے کئی اہم مولانا حضرات کے بیانات میں بار بار سپریم لیڈر مولانا خامنہ ای کو خبردار کیا جا رہا ہے۔ پابندیاں لگیں تو ایرانی عوام میں غربت مزید بڑھے گی اور ساتھ ہی ردعمل بھی۔ تیسری طرف سعودی عرب کے اصل حکمران یعنی ولی عہد کے امریکہ سے روابط بڑھ رہے ہیں اور اس سمت میں جا رہے ہیں جس سمت میں جانے کی اسرائیل کو تمنا تھی۔ حالیہ دورہ امریکہ میں ولی عہد نے اسرائیل کے حامل یہودی رہنمائوں سے ملاقات کی اور اس میں انہوں نے فلسطینیوں کو مشورہ دیا کہ اسرائیل انہیں جو کچھ دے رہا ہے، وہ لے لیں ورنہ چپ بیٹھیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو راکٹ گولی کے سوا اور کیا دے رہا ہے۔ ولی عہد کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی امن سے رہیں۔ مظاہرے کریں نہ مطالبات پیش کریں اور اسرائیلی اتھارٹی کو جوں کا توں قبول کر لیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی اگر صورت حال کو جوں کا توں قبول کر لیں تو بھی صورت حال جہاں ہے، وہاں رکی نہیں رہے گی۔ اسرائیل مغربی کنارے کی زمین مسلسل اپنے قبضے میں لیے جا رہا ہے اور جس رفتار سے یہ قبضہ ہو رہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ محض چند برس بعد مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کے پاس ایک چھوٹی سی پٹی ہی باقی رہ جائے گی جو غزہ کے برابر ہو گی۔ غزہ انسانوں کی بستی نہیں ہے، ایک دڑبہ خانہ ہے جس میں لوگ مرغیوں کی طرح ٹھونسے ہوئے ہیں۔ یہی حال مغربی کنارے کا بھی ہونے والا ہے۔ اس وقت ایک مثلث مشرق وسطیٰ میں نظر آ رہی ہے۔ ایک کونے پر امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب بشمول دیگر عرب ممالک ہیں۔ دوسرا کونہ روس ایران اور شام کا ہے اور تیسرے کونے میں صرف ایران ہے، شام اور روس غائب ہیں۔ فلسطینی کسی کونے میں نظر نہیں آتے۔ ایران میں امریکی منشا کے مطابق تبدیلی آئی تو اس کا فال آئوٹ کیا ہو گا۔ کوئی نہیں جانتا لیکن اتنا بہرحال معلوم ہے کہ تابکاری کے بادل ادھر افغانستان تک پہنچیں گے تو کچھ نہ کچھ غبار آلودہ جھونکے پاکستان کا رخ بھی کر سکتے ہیں جس کی مغربی بیلٹ میں نئی فالٹ لائنیں پہلے ہی نمودار ہونے لگی ہیں۔