Phir Durust Farmaya
Abdullah Tariq Sohail92 News753
وزیر اعظم نے یہ بہت اچھی روایت قائم کی ہے کہ وہ تقریباً ہر دوسرے روز قوم سے خطاب کر ڈالتے ہیں۔ پہلے کی طرح اب قوم سے خطاب کے لئے خصوصی انتظامات اور پی ٹی وی آنے کی ضرورت نہیں۔ تقریب کچھ تو بہر "خطابات" چاہئے، کے طور پر کسی بھی موقع کو کیمروں کے سامنے آنے کے لئے استعمال کر لیا جاتا ہے۔ یوں قوم سے خطاب ہو جاتا ہے، قوم اداس نہیں ہوتی کہ دیکھو تین روز ہو گئے، وزیر اعظم نے خطاب نہیں کیا۔ گزشتہ روز تین دنوں میں وزیر اعظم نے ایڈیٹروں، سینئر صحافیوں سے دوسری ملاقات کی اور ان کی وساطت سے خطاب بہ قوم فرمایا۔ وزیر اعظم کی یہ بات بھی بہت اچھی ہے کہ وہ کوئی نئی بات نہیں کرتے۔ نئی نئی باتوں سے قوم کا ذہن الجھ جاتا ہے اور ذہن الجھ جائے تو قومیں راہِ منزل سے بھٹک جایا کرتی ہیں۔ وہ نئی بات کے بجائے قوم کو پہلے بتائی ہوئی باتوں کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ دراصل سوئے اتفاق سے قوم کا حافظہ کمزور ہے اس لئے وزیر اعظم ہر دوسرے روز قوم کو سبق پکا کراتے ہیں۔ تازہ خطاب میں انہوں نے جو یاددہانیاں کرائیں وہ اس طرح سے تھیں کہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا۔ نواز شریف نے چوری کی(تین ہزار کروڑ کا ہندسہ اس بار نہیں دہرایا) زرداری نے سینکڑوں ارب کی منی لانڈرنگ کی، عثمان بزدار کو نہیں بدلوں گا۔ مہنگائی کی ذمہ دار پچھلی حکومت ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی سب سے کامیاب ہے اور دیگر وغیرہ وغیرہ جات!٭٭٭٭٭وزیر اعظم کی باتیں سچی باتیں ہیں اس لئے بار بار سن کر قند مکرر در مکرر کا لطف آتا ہے۔ خارجہ پالیسی والی بات ہی کو لے لیجیے، کون کافر ہے جو اس میں شک کرے۔ 70سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے کہ سات ماہ میں اتنی کامیابیاں ملی ہوں۔ سعودی عرب سے ملی۔ امارات سے ملی اور اب کل ہی چین سے ملی۔ چوتھی کامیابی چند روز تک آئی ایم ایف سے ملنے والی ہے۔ بلا شبہ ان کامیابیوں پر عائد شرح سود بہت زیادہ ہے لیکن کامیابی کی شرح کے آگے پھر بھی کچھ نہیں۔ اب یہ جو چوتھی کامیابی آئی ایم ایف سے ملنے والی ہے، اس کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ یہ غیر مشروط ہے یعنی آئی ایم ایف کوئی شرط عائد نہیں کرے گا۔ ہماری یہ حکمت عملی کامیاب رہی کہ اس سے پہلے کہ آئی ایم ایف کوئی شرط لگائے، ہم پہلے ہی اسے پورا کر دیں۔ جتنی شرطوں کا اس سے خدشہ تھا کہ ہم نے ان سے بھی بڑھ کر کئی ماہ پہلے ہی پوری کر دیں، یوں اس کا منہ بند کرا دیا۔ اسی کو وژن کہتے ہیں اور لیڈر شپ اسی کا نام ہے۔ ٭٭٭٭٭ایک اور ضمنی کامیابی وزیر اعظم ملائشیا مہاتیر محمد کے دورے کی ہے۔ ہم نے ان سے پام آئل ادھار مانگا تھا۔ انہوں نے کتنا قیمتی مشورہ دیا۔ پام کے درخت لگا لو، چاہے ہم سے لگوا لو۔ اپنے درخت اپنا تیل۔ یہ انمول مشورہ انہوں نے بلا سود ہمیں دیا۔ کیسی کامیابی ہے۔ انہوں نے جاتے جاتے فرمایا، پاکستان بھارت کے تنازعے میں ہم غیر جانبدار رہیں گے۔ یہ بات وہ کوالالمپور میں بیٹھے بیٹھے بھی کہہ سکتے تھے لیکن صرف ہماری دلجوئی کے لئے انہوں نے یہ بات کہنے کی غرض سے دورہ فرمایا۔ یہ ہوتی ہے بین الملکی فرینڈ شپ۔ دراصل یہ بیان دے کر انہوں نے بھارت کی دل شکنی کی۔ بیان کے الفاظ دوبارہ پڑھیے، مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کسی کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کسی میں بھارت بھی آ جاتا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ بھارت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ٭٭٭٭٭فرمایا، نواز شریف کے لئے قانون نہیں بدل سکتے۔ بالکل نہیں بدلنا چاہیے۔ قانون صرف مستحقین کے لئے بدلا جا سکتا ہے جیسا کہ بنی گالہ کو جائز بنانے کے لئے بدلا گیا۔ جیسے کہ محترمہ علیمہ خاں کو صادقہ و امینہ بنانے کے لئے بدلا گیا۔ جیسے کہ ہیلی کاپٹر کیس میں بدلا گیا۔ فارن فنڈنگ کیس میں قانون بدلا نہیں گیا، صرف گہری نیند سلا دیا گیا۔ زرداری کے لئے بھی قانون بدل دیا گیا۔ وہ جن کیسوں میں بری ہو چکے وہ سارے کے سارے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وہ پھر بری ہو گئے تو کیس بھی تیسری بار کھول دیے جائیں گے۔ جائز بات ہے، جائز بات کے لئے قانون بدلنا ہرگز غیر قانونی نہیں۔ ناجائز بات کے لئے قانون بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٭٭٭٭٭فرمایا، عوام میرے ساتھ ہیں۔ بالکل سچ فرمایا۔ مرشدی مشرف بھی یہی کہا کرتے تھے، وہ بھی سچ فرماتے تھے۔ عوام وزیر اعظم کے ساتھ ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ وہ عوام کی زندگی میں آسانیاں لا رہے ہیں، خوشیوں کے رنگ بھر رہے ہیں۔ عوام وزیر اعظم کے لئے سراپا دعا گو ہیں۔ اور جو مزید خوشیاں وہ انہیں دینے والے ہیں (جن کی اطلاع اسد عمر وغیرہ نے دی ہے) اس کے لئے وہ ایڈوانس دعائیں بھی دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم خود کو ریاست مدینہ کہتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو، وہ بھیس بدل کر عوام میں گھومیں پھریں اور ان کے خیر سگالی کے جذبات کا بالمشافہ مشاہدہ و مسامعہ کریں۔ ان کا دل باغ باغ ہو جائے گا(وزیر اعظم کا)٭٭٭٭٭سٹاک مارکیٹ مسلسل حالت کریش میں ہے۔ منگل کے روز بھی اسے عظیم مندی کا سامنا رہا۔ سرمایہ کاروں کے لگ بھگ 80ارب روپے ڈوب گئے۔ 75فیصد حصص کی قیمتیں گر گئیں۔ انڈکس کی چار حدیں بھی بیک وقت گریں۔ مندے کی تازہ لہر چین سے سوا دو ارب ڈالر قرضہ ملنے کی خبر کے بعد آئی۔ کمال ہے، ایسی بیماری کہ ہر دوا کے بعد مزید بڑھ جائے، اسے کیا کہا جائے۔ سٹاک مارکیٹ کے رقص بسمل کا یہ مسلسل ساتواں مہینہ ہے۔ بیچ میں تیزی کے کل چار دن آئے۔ سٹیٹ بنک نے اس مہینے کی 16تاریخ کو اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سات مہینوں کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری 75فیصد(صحیح اعداد میں 74.8 ) کم ہو گئی اور اس عرصے میں سٹاک مارکیٹ سے 70کروڑ 89لاکھ ڈالر(لگ بھگ 50ارب روپے) کا سرمایہ نکال لیا گیا۔ یہ دس دن پہلے کی رپورٹ ہے، ان دس دنوں میں سرمائے کے فرار کی رفتار اور بھی تیز ہوئی۔ دنیا انوکھے مسیحائوں کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔