آرمی چیف نے یوکرائن پر روسی حملے کو جارحیت قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں سکیورٹی ڈائیلاگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس معاملے پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا کہ یوکرائن میں فوراً جارحیت بند کی جائے۔ آرمی چیف کا یہ خطاب پاکستان کا قومی موقف ہے اور اس عالمی اصول کی پاسداری ہے جس کے تحت کسی بھی ملک پر جارحیت ناقابل قبول ہے۔
ماضی میں پاکستان نے ہر جارحیت کی مخالفت کی ہے، چاہے وہ کویت ایران پر عراق کی جارحیت ہو یا عراق اور افغانستان پر امریکہ اور روس کی جارحیت ہو۔ پاکستان نے امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود ویت نام پر امریکی قبضے کی بھی مخالفت کی تھی۔ یوکرائن پر روسی حملے کی تائید دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی نہیں کی۔ حتیٰ کہ بھارت اور چین نے بھی محض یہ کہا کہ حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا لیکن حمایت میں بیان نہیں دیا۔ البتہ چین نے یہ بیان دیا کہ یوکرائن میں جو حالات پیدا ہوئے، اس کا ذمہ دار امریکہ ہے۔
پاکستان کے لئے البتہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ روس اور بھارت ایک قسم کا اتحاد بنانے والے ہیں۔ بھارت خارجہ امور میں، اپنے مفاد کی حد تک، بہت سیانا ہے۔ وہ روس اور امریکہ دونوں کو بلیک میل کرتا رہتا ہے اور دونوں سے بنا کر بھی رکھتا ہے۔ ان دنوں وہ امریکہ کا "سٹریٹجک اتحادی بھی بنا ہوا ہے اور روس سے سستا تیل بھی خرید رہا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے یا ہماری کوتاہی کہ سعودی عرب کی اس سے ان دنوں گاڑی چھن رہی ہے۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس ہوئی اور عین اس کانفرنس کے دوران سعودی عرب امارات اور تائیوان نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 70ہزار کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے دو مضمرات بالکل سامنے ہیں۔ ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر، اسلامی کانفرنس کے موقف کے بالکل الٹ، بھارت کا حصہ مان لیا گیا ہے اور دوسرے یہ کہ سرمایہ کاری کے ان منصوبوں کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کا آبادیاتی توازن بدل جائے گا، یعنی ڈیمو گرافی کچھ اور ہو جائے گی۔
وہ ایسے کہ اتنے بڑے بڑے میگا منصوبے جب تعمیر ہوں گے تو افرادی قوت بھارت بھر سے بالعموم اور شمال مغربی بھارت(یو پی، راجستھان، پنجاب ہریانہ وغیرہ)سے بالخصوص آئے گی اور یہ طویل عرصہ قیام کرے گی، بہت سے ان میں سے پھر یہیں کے ہو کے رہ جائیں گے۔ نریندر مودی اور اس کی جماعت بی جے پی اعلانیہ کہتے رہے ہیں کہ ہم کشمیر میں آبادی کا توازن بنائیں گے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی بہت کم ہے اور اس کی ڈیمو گرافی بدلنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ کل آبادی سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے جس کا 68فیصد مسلمان ہے۔ یعنی 32فیصد غیر مسلم۔ دو عشرے پہلے مسلمان 75فیصد کے آس پاس تھے۔
صرف دو تین ملین اور غیر مسلم بھارتی یہاں آباد ہو جائںی تو آبادیاتی نقشہ ہی بدل جائے گا۔ ایک ہی صورت ہے، اگلے الیکشن میں بی جے پی کو شکست ہو اور دوسری پارٹیاں برسر اقتدا آ جائیں جو آئین کی اس شق پر عمل کریں جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ایک الگ تشخص دیا گیا ہے اور کوئی غیر کشمیری یہاں کا شہری نہیں بن سکتا۔ بی جے پی نے یہ شق منسوخ کر دی ہے اور بظاہر کوئی اچھی امید نظر نہیں آتی۔
٭دوسری طرف یوکرائن میں روس کی بے بسی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ہفتے یوکرائنی فوج نے دارالحکومت کیف کے نزدیکی شہر ارپن سے روسی فوج کو پسپا کر دیا ہے۔ ارپن کی آزادی روس کے لئے زبردست دھچکا ہے۔ کیف پر قبضہ اس شہر پر قبضے کے بغیر ممکن نہیں۔ چھ ہفتے پہلے روسی فوج کیف سے جتنی دور رہ گئی تھی، اب اس سے زیادہ دور ہے۔
یوکرائن کے کئی اور مقامات سے بھی جارح فوج کو کھدیڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔ اسی لئے وائٹ ہائوس کے ترجمان نے دو روز پہلے یہ بیان دیا کہ یوکرائن کو شکست دینے کا روسی منصوبہ شکست کھا چکا ہے۔ مغربی ممالک نے یوکرائن کو میزائل اور ڈرون طیارے دینے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ دو روز پہلے پہلی بار یوکرائنی فضائیہ نے روسی سرحدوں کے اندر گھس کر ایک روسی تیل کارخانہ اڑا دیا اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یوکرائنی طیارے بمباری کے بعد صحیح سلامت اپنے اڈوں پر لوٹ بھی آئے۔
روسی فوج نے سرحدوں کے ساتھ ساتھ بہت سے یوکرائنی دیہات پر قبضہ کیا ہے لیکن حیرت کی اور عبرت کی بھی بات یہ ہے کہ ایک بھی قابل ذکر یوکرائنی شہر اس کے قبضے میں نہیں آ سکا۔ ارپن واحد شہر تھا جس پر حملے کی شروعات میں اس نے قبضہ کر لیا تھا، دو تین روز پہلے وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ عورتوں اور بچوں کو مارنے، ہسپتالوں، یتیم خانوں، سکولوں اور مسجدوں پر بمباری کر کے لذت کشید کرنے والا پیوٹن اپنی حسرتوں کے زخم چاٹ رہا ہے، اسے اس بات کی بھی پریشانی ہے کہ فوج کے افسروں میں اپنے"سپریم کمانڈر" کے خلاف غم و غصہ پڑھتا جا رہا ہے، جو ایسی جنگ میں جانیں دے رہے ہیں جو کبھی جیتی ہی نہیں جا سکتی۔
فوجی افسروں کو عوامی منفی ردعمل کا بھی اندازہ ہے اور یہ افسر اس بات پر بھی نالاں ہیں کہ پیوٹن کے مشیر نہ صرف اسے غلط مشورے دے رہے ہیں بلکہ اسے حالات کی جو تصویر دکھا رہے ہیں، وہ بھی غلط ہے۔ خود پیوٹن کو بھی کچھ کچھ حقیقت معلوم ہونے لگی ہے اور اسی لئے اس نے ترکی سے کہا ہے کہ و مصالحت کار کا کردار ادا کرے اور یوکرائن کو "غیر جانبدار" ملک ہونے پر راضی کرے۔ یہ مطالبہ غلط ہے لیکن ساتھ یہ روس کی کمزور اپوزیشن کا اظہار بھی ہے۔