Sehra Main Bahar
Abdullah Tariq Sohail92 News738
چند دن پہلے کسی یورپی ملک کے سربراہ نے امریکی صدر ٹرمپ سے شکایت کی کہ شمالی افریقہ سے آنے والے تارکین وطن یورپ کے لیے بڑا مسئلہ بن رہے ہیں، کئی مشکلات کا سامنا ہے، کچھ کریں۔ ٹرمپ نے اس کا جو جواب دیا، وہ وہی دے سکتے تھے۔ فرمایا، شمالی افریقہ میں صحرائے اعظم کی ساری سرحد پر دیوار کھڑی کر دو۔ یورپی سربراہ پہلے تو ہکا بکا رہ گئے کہ اتنے بڑے صحرا پر اتنی لمبی دیوار کون بنائے گا، پھر بات سمجھ آئی تو خفیف ہو گئے۔ ٹرمپ نے اصل میں موصوف کو بتایا تھا کہ یہ مسئلہ میرے ساتھ اٹھانے کا نہیں ہے۔ جو کرنا ہے خود کرو۔ دیوار کی بات اس لحاظ سے بھی بے معنی تھی کہ تارکین صحرا سے نہیں، صحراکے اوپر والی شمالی ساحلی پٹی سے آتے ہیں۔ صحرا میں رہنے والوں کے لیے یورپ جانے میں کوئی کشتی ہے نہ وہ وہاں جانے کا سوچ سکتے ہیں۔ یہ تو ساحلی پٹی کے پڑھے لکھے یا نیم پڑھے لکھے نوجوان ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہاں انہیں ملازمت مل جائے گی۔ پاکستان سے بھی ایسے ہی نیم پڑھے لکھے افراد غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت سارے راستے ہی میں مر جاتے ہیں یا پکڑے جاتے ہیں۔ شمالی افریقہ کے یہ تارکین وطن کشتیوں میں بیٹھ کر سارا بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ڈوب جاتے ہیں۔ صحرائے اعظم کے آر پار کوئی دیوار بنانا چاہے بھی تو کیسے بنا سکتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ جو ہزاروں میل لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔ بیسوں میل تک ریت ہی ریت ہے، پھر کہیں آکے کچھ علاقہ جھاڑیوں کا آتا ہے۔ کہیں پتھریلی سطح مرتفع ہے، کہیں ریت ملی مٹی کے میدان ہیں۔ پچاس میل کا سفر بھی کرنا ہو تو پانی ساتھ رکھنا پڑتا ہے اور راستے میں پانی ملنے کی صورت کم ہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ٹرمپ نے تو جو کہا وہ کہا اور اس کے کوئی معنے بھی نہیں تھے۔ لیکن صحرائے اعظم میں ایک دیوار ایسی ہے جو بن رہی ہے۔ اور اس کا نام ہے"دیوار سبز" یعنی گرین وال۔ شمالی افریقہ کے ان ملکوں کی تعداد 20ہے جو یا تو سارے کے سارے صحرا میں ہیں یا ان کا ایک حصہ ریتلے پتھریلے رقبے پر ہے۔ یہ دیوار یہی بیس ملک بنا رہے ہیں اور منصوبے کی ذمہ داری افریقی ملکوں کی تنظیم افریقی یونین کے پاس ہے۔ یہ 20ملک شرقاً غرباً بحر ہند کے ساحلوں سے لے کر بحرا اوقیانوس کے کنارے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ صومالیہ سے سینگال تک ہزاروں میل لمبی یہ دیوار کسی دیوار چین کی طرح مسلسل نہیں ہو گی بلکہ اس کے تحت جگہ جگہ، ایک دوسرے سے فاصلوں پر نخلستان بنائے جا رہے ہیں، کہیں جنگل اگائے جا رہے ہیں، کہیں محض درختوں کے چھوٹے ذخیرے۔ صحرائے اعظم قدرت کا ایک عجوبہ ہے۔ یہ اس طرح کا تاحد نظر بے آباد ویرانہ بھی نہیں ہے جس طرح ہم اسے سمجھتے ہیں۔ یہاں آبادی بہت کم ہے لیکن ہر چند دس میل کے بعد کوئی نہ کوئی گائوں اور آبادی ضرور مل جاتی ہے۔ میلوں لمبے ایسے رقبے بھی ہیں جہاں کوئی روئیدگی نہیں ہے لیکن پھر اچانک ہی صحرائی جھاڑیاں نظر آ جاتی ہیں جیسے ہمارے ہاں تھر اور چولستان میں ہوتی ہیں۔ ایک عجوبہ یہ ہے کہ دن کو آپ صحرا میں کہیں کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر ڈالیں۔ سوائے ٹیلوں اور پتھریلی سطح مرتفع اور ریت کے سمندر کے کچھ نہیں ملے گا۔ آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم اس زیر نگاہ رقبے میں زندگی کا وجود نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی شام ڈھلتی ہے۔ یہ مردہ علاقہ جیسے کسی طلسم کے تحت جاگ اٹھتا ہے۔ آپ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ لومڑی، گیدڑ، خرگوش، لکڑ بھگے سے لے کر اژدھے، سانپ، چوہے، بچھو اور گرگٹ تک ان گنت جانور روزی روٹی کے چکر میں باہر نکل آتے ہیں۔ سارا صحرا چہل پہل سے بھر گیا ہے۔ مشرق میں صومالیہ اور سوڈان جیسے ملک ہیں۔ مغرب میں نائجیریا اور سینگال کے۔ ان ملکوں میں سربسر صحرا نہیں، کہیں کہیں گھنے جنگل بھی ہیں، ان میں تالاب، جھیلیں بھی ہیں اور بڑے جانور، یہاں تک کہ ببر شیر، چیتے اور ہاتھی بھی ہیں۔ ٭٭٭٭٭کچھ عشروں سے افریقہ میں صحرا ریلی نکلتی ہے۔ شمال کے ساحلوں سے لے کر جنوب مغرب میں ڈاکر تک جاتی ہے۔ اس کار ریلی کے روٹ پر آبادی ہو رہی ہے۔ یہ گویا ایک "بین الاقوامی" رہگزر سی بن گئی ہے۔ صحرائے اعظم میں بہت کم لوگ بھوک اور پیاس سے مرتے ہیں۔ اس کے بجائے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ جنگلوں میں مر چکے ہیں۔ صومالیہ میں لاکھوں لوگ مرے۔ وہاں جو قحط پڑا تھا، اس کی وجہ بھی جنگ تھی۔ لاکھوں ایتھوپیا میں، لاکھوں سوڈان میں مرے۔ مغربی افریقی ملکوں میں بھی لڑائی جھگڑے جاری رہتے ہیں۔ صحرائے اعظم کی "تاریخ مرگ" بھی باقی دنیا سے الگ نہیں۔ جتنے لوگ قدرتی آفات، زلزلوں، سیلابوں اور قحط سے مرے ہیں، ان سے دسیوں گنا لوگ انسان کے اپنے کارناموں سے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ صحرائے اعظم کا رقبہ 35لاکھ 52ہزار مربع میل ہے یعنی پاکستان جیسے گیارہ بارہ ملک اس میں گم ہوجائیں۔ اس کی لمبائی تقریباً3ہزار میل اور چوڑائی (شمالاً جنوباً) 1118میل ہے۔ اس صحرا کے نیچے جتنا بھی افریقہ ہے، اسے "سب صحارن" کہا جاتا ہے یعنی، ماتحت الصحرا، اور یہ سب ہرا بھرا ہے۔ کہیں گھاس کے میدان ہیں، کہیں استوائی اور پہاڑی جنگل اور بہت سے رقبے میں بارانی جنگل ہیں۔ بارانی جنگل ایسے گھنے ہوتے ہیں کہ دن میں دھوپ نظر نہیں آتی۔ لیکن اس ہرے بھرے افریقہ میں پھر دو صحرا ہیں۔ ایک جنوبی افریقہ میں کالا ہاری کا صحرا اور دوسرا جنوب مغرب میں نمیب کا صحرا۔ اس صحرا پر مشتمل ملک کو نمیبیا کہا جاتا ہے۔ یہاں ہاتھی سے لے کر چوہے تک بے پناہ جنگلی حیات پائی جاتی ہے جو صحرا میں زندگی گزارنے کا ہنر جانتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کا صحرائے کالا ہاری دنیا کی واحد جگہ ہے جس کے اندر رہنے والے قدیم افریقی ذاتی ملکیت پر یقین نہیں رکھتے۔ انہیں جھڑ مانس Bush Manکا نام دیا گیا ہے۔ ان کے پاس تیر کمان اور بدن ڈھانکنے کے لیے نام نہاد لباس کے سوا کچھ بھی ذاتی ملکیت میں نہیں، حتیٰ کہ جھونپڑا بھی نہیں۔ آج یہاں لگا لیا، کل وہاں لگا لیا۔ زیادہ تر یہ سبزی اور جڑیں کھاتے ہیں، کبھی جانور بھی مار لیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا انہیں آتا ہی نہیں۔ لیکن اب تہذیب نے اس صحرائی جنگل میں بھی راستے نکال لیے ہیں۔ کچھ برس نہ سہی۔ ایک آدھ عشرے میں جھڑمانس بھلا مانس بن جائے گا اور ایک دوسرے کا خون بہانے کے طریقے بھی سیکھ لے گا۔ جھونپڑیوں کی جگہ پر مکان ہوں گے، سڑکیں بنیں گی۔ یہ تیرا یہ میرا کے نعرے گونجیں گے۔ ٭٭٭٭٭صحرائوں میں سبزہ زاروں کے جزیرے بنانے کا کام اس سے پہلے سعودی عرب کامیابی سے کر چکا ہے۔ مشرقی علاقے میں اس نے مصنوعی آبپاشی سے ایک رقبہ گل و گلزار کر لیا ہے۔ ایک عجیب اور دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جیسے ہی یہ علاقہ ہرا ہوا، ویسے یہ نہ جانے کہاں سے وہ پرندے بھی اچانک نمودار ہو گئے جو صحرائی علاقوں کے آس پاس بھی نہیں ہوا کرتے۔ یہ رقبہ محدود ہے لیکن اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭بھارت نے اپنے ہاں کے تھر(راجستھان) میں جگہ جگہ پانی پہنچایا ہے اور سبزہ بھی لگایا ہے۔ صحرا کبھی ختم نہیں ہوتے لیکن ان میں سے سبزے کی راہداریاں نکالی جائیں تو ایک طرف زندگی زیادہ پررونق ہو جاتی ہے، لوگوں کے صحرا میں بھٹک کر مرنے کے اندیشے کم ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف یہ علاقے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بن جاتے ہیں۔ پاکستانی تھر بھارتی تھر سے بہت چھوٹا ہے۔ کبھی تو کوئی حکومت ایسی آئے گی جو یہاں جابجا سبزے کے پیوند لگائے گی۔ معاف کیجئے گا، عمران خاں کے اربوں درخت لگانے کے منصوبے سے کوئی توقع رکھنا کار حماقت ہے۔ جیسے ایک ارب درخت انہوں نے پختونخوا کے "ماورائی" علاقوں میں لگائے۔ ویسے ہی اربوں، بلکہ کھربوں درخت وہ پنجاب اور سندھ میں بھی لگا سکتے ہیں۔ اور ماورائی علاقوں میں لگے ماورائی درختوں کو ماورائی لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ملک کو سچ مچ کے غیر ماورائی درختوں کی ضرورت ہے۔