عمران خان جب سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کئے گئے ہیں، تب سے بے کل ہیں اور فی یوم کے حساب سے ان کی بے کلی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر جلسے میں بے نقط سناتے ہیں۔ کل بارانی یونیورسٹی میں خطاب کیا اور طلبہ سے نیوٹرلز کے خلاف نعرے لگوا دئیے اور یہ تحقیق بھی پیش کی کہ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی نیوٹرل حضرات ہیں۔
بڑا راز کھول دیا لیکن کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ نیوٹرلز کے سائے میں ساڑھے تین برس حکومت کی تب تک نہیں کھلا، فارغ کر دئیے گئے تو پانچ ماہ کے بعد کھلا۔ راز کھلتے کھلتے کچھ دیر نہیں ہو گئی؟
شام پختونخواہ میں جلسہ کیا اور فرمایا کہ مجھے دبایا گیا تو اور زیادہ زور سے لڑوں گا۔ بڑا دعویٰ ہے لیکن ابھی اس کی جانچ ہونی ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے دبایا جانا شرط ہے اور ابھی تک تو آپ کو کسی نے دبایا کیا، چھوا تک نہیں۔ ابھی تو آپ "تاحیات" ضمانت پر ہیں، ہر جگہ، ہر روز جلسے کر رہے ہیں اور جلسوں میں وہ سب کچھ ارشاد فرما رہے ہیں جو آج تک کسی نے فرمانے کا سوچا نہ کسی کو اجازت ملی۔ آپ جو کچھ بے تحاشا فرما رہے ہیں، کوئی اور اس کا ہزارواں حصہ بھی فرما دے تو وہی حال ہو جو علی وزیر کا ہوا۔
***
خان صاحب تاحیات ضمانت پر کیوں ہیں، اس راز سے بھی آپ نے پردہ اسی جلسے میں اٹھا دیا۔ فرما دیا کہ جیل جانا تو چھوٹی بات ہے، میں تو جان دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔ ظاہر ہے، خان صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، چھوٹی بات پر عمل کیوں کریں گے۔ رہا یہ معاملہ کہ انہوں نے عدالت سے یہ حکم کیوں لیا کہ حکومت انہیں ہراساں نہ کرے یعنی ڈرائے مت تو جواب اس کا یہ ہے کہ جو کسی سے نہیں ڈرتا، اسے ڈرانا بے وقوفی ہے، حکومت کو اس بے وقوفی سے روکا گیا ہے۔
***
پی ٹی آئی کا ایک شعبہ "عوامی مسلم لیگ" کہلاتا ہے۔ سربراہ اس شعبے کے شیخ رشید ہیں، وہی لال حویلی والے۔ گزشتہ رات پی ٹی آئی کے حامی چینل پر وسیم بادامی کو انٹرویو دیا۔ چند فقرے حرف بحرف یعنی کوٹ ان کوٹ ملاحظہ ہوں:
"دو تین دن سے سوچ رہا ہوں کوئی بڑا فیصلہ کر ڈالوں، کچھ بھی کر ڈالوں، اپنے خلاف کر لوں کوئی فیصلہ، جو ہو رہا ہے، مجھ سے دیکھا نہیں جاتا، ڈپریشن کی انتہائی حد میں ہوں، کچھ بھی کر سکتا ہوں، میں لاتعلق ہوا ہوں، پہلی دفعہ زندگی سے"
خدا خیر کرے۔ شیخ صاحب کو بالعموم عمران خان کا غیر اعلانیہ ترجمان سمجھا جاتا ہے، خدا جانے وہ اپنی بات کر رہے تھے یا ترجمانی فرما رہے تھے۔ تان انہوں نے یہ کہہ کر توڑی کہ حکومت والوں کی شکلیں بدشکلیں ہیں۔ ہائے، اب پری پیکروں، حُور تمثالوں کی حکومت پھر سے کیسے بحال ہو!
***
جنگلی حیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیوایف نے پاکستان کے بارے میں بہت پریشان کر دینے والی رپورٹ دی ہے۔ کہا ہے کہ نصف صدی کے دوران پاکستان کی جنگلی حیات کا 70 سے 80 فیصد تک صفایا ہو گیا ہے۔ پانی کی مخلوق 83 فیصد حد تک اور پرند ے اور حیوانات 70 فیصد نیست و نابود ہو رہے ہیں بہت سی حیوانی انواع کے سرے سے ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے جبکہ 5۔ 2 فیصد انواع تو پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں۔ رپورٹ میں ہے کہ پاکستان میں جنگلی حیات سرکار کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔
جنگل جب تباہ ہوتے ہیں تو جنگلی حیات بھی تباہ ہوتی ہے۔ اوپر سے پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں جانوروں کے شکار پر عملاً کوئی پابندی نہیں محکمے کے افسر سے دوستی ہو یا دے دلا کر جب بھی چاہیں، آپ جتنے بھی چاہیں، جانور مار سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی اینکر نے اپنی تصویر اپ لوڈ کی جس میں دکھایا گیا کہ اس نے سینکڑوں تیتر ایک ہی ہلّے میں مار گرائے۔
پاکستان میں جنگلات کا رقبہ مسلسل سکڑ رہا ہے۔ اس وقت ملک کا کل ساڑھے چار فیصد رقبہ جنگلات پر ہے۔ ٹمبر مافیا ایوب خان کے زمانے میں نمودار ہوا اور خاص طور سے پچھلے آٹھ دس برس کے دوران پختونخواہ کے بے پناہ جنگلات کا اس نے صفایا کر دیا۔ سوشل میڈیا پر عمران خان نے ایک ارب درخت ضرور لگائے لیکن عملاً پختونخواہ گنجا صوبہ بن کر رہ گیا ہے۔ جنگلات کی ریکارڈ کٹائی ان کے نو سالہ دور اقتدار میں ہوئی، سرکار والوں نے خود بھی کی اور اس کی سرپرستی میں دوسرے لوگوں نے بھی کی۔
***
پاکستان کے ساڑھے چار فیصد کے مقابلے میں بھارت کا 25 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ پنجاب اور ہریانے کے دو چھوٹے صوبے چھوڑ کر باقی تمام ملک جنگلوں سے اٹا ہوا ہے حتیٰ کہ راجستھان جو آدھے سے زیادہ صحرائی اور پتھریلے بنجر علاقوں والا صوبہ ہے، وہاں بھی جنگلات کا رقبہ ساڑھے دس فیصد ہے بھارت میں جنگلوں کا رقبہ آزادی کے بعد سے حکومت نے بڑھایا ہے، ہم نے مسلسل کم کیا ہے۔ بھارت میں جانور بڑھے ہیں، ہمارے ہاں صفایا پھر گیا ہے۔
خیر، ایک دلچسپ واقعہ راجستھان ہی کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیے اور سوچ کو راہ دیجئے۔ پرانا اور تاریخی واقعہ ہے لیکن تسلسل آج بھی ہے۔ یہ ساڑھے چار سو سال پہلے جودھ پور میں ایک جماجی نام کا شخص جنگلی حیات کی حفاظت کا نعرہ لے کر اٹھا اور اپنا ایک گروہ (CULT) منظم کیا۔ 34 سال اس کی عمر تھی جب اس نے بیس نو (20، 9) کی تحریک شروع کی۔ دراصل اس نے 29 اصول دئیے۔ اس کے پیروکاروں نے 29 کا ہندسہ 20 اور 9 الگ الگ کر کے پڑھا اور یوں یہ فرقہ بیس نوئی تحریک کہلایا۔ یہ سب اصول ماحولیات سے متعلق تھے اور پہلا اصول یہ تھا کہ کوئی جانور ماریں گے نہ کسی کو مارنے دیں گے اور دوسرا اصول یہ کہ کسی درخت کو کاٹیں گے نہ کاٹنے دیں گے۔ کھیجاڑی نام کا جنگل اس تحریک نے خوب آباد کیا۔ جماجی مر گیا، تحریک زندہ رہی۔ آج سے کوئی اڑھائی سو سال پہلے جودھ پور کے راجہ نے یہاں سے سڑک نکالی اور جنگل کاٹنے کا حکم دیا۔ بیس نوئی فرقے کے لوگ درختوں سے آ کر چمٹ گئے کہ نہیں کاٹنے دیں گے لیکن سرکاری اہلکاروں کے آرے چلے، 363 بیس نوئی درختوں سمیت کاٹ ڈالے گئے۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے عالمی تاریخ میں دی گئی یہ سب سے بڑی انسانی قربانی تھی۔
جنگل بہرحال قائم رہا، اس میں رہنے والے ہرن اور دیگر جانور بھی دنیا کے سب سے زیادہ محفوظ جانور ہیں کہ بھارتی حکومت نے 435 مربع کلومیٹر کے اس جنگل کو "ڈولی" کے نام سے محفوظ قرار دے دیا ہے۔ یہاں کسی کی جرات نہیں کہ درخت کاٹ لے یا جانور کو مار دے۔ یہ جنگل جودھ پور سے محض 20 میل دور ہے۔
اسلام کی بھی تو یہی تعلیم ہے۔ درخت مت کاٹو، بلاجواز اور ضرورت کے کسی جانور کو مت مارو بلکہ رحم کرو۔ لیکن پاکستان میں جانور کو اس بری طرح مارا جاتا ہے کہ جانور نہ ہوئے، عورتیں اور بچے ہو گئے، جب چاہا کاٹ ڈالا۔
***