Tazkar Altaf
Abdullah Tariq Sohail92 News773
حسب توقع اور حسب سکرپٹ صدارتی پلائو بگھارنے پر بحث کی لے بلند ہونے لگی ہے لیکن ساتھ ہی خلاف توقع اور خلاف سکرپٹ۔ مخالفانہ آوازیں بھی بہت بلند ہیں اور مزاحمت کے آثار نمودار ہیں۔ مخالف جانتے ہیں کہ صدارتی نظام سے ملک خطرے میں ہو گا اور انوکھی بات یہ ہے کہ صدارتی نظام کے حامی بھی جانتے ہیں کہ ملک ٹوٹ سکتا ہے، پھر بھی وہ یہ نظام لانا چاہتے ہیں۔ یا مظہر العجائب! پہلی بار صدارتی نظام آیا، ملک ٹوٹ کر آدھا رہ گیا۔ اس بار آیا تو کہیں اس مصرعے والا معاملہ نہ ہو جائے کہ ععشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمامنصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزرا۔ ایک نوجوان نے 1959ء میں بتا دیا تھا کہ ہمارے ملک کا جغرافیہ ایسا ہے کہ صدارتی نظام آیا تو علیحدگی کے جذبات اٹھیں گے۔ جغرافیہ سے مراد ظاہر ہے جنگل پہاڑ والا نہیں۔ نسلوں اور قومیتوں والا۔ جغرافیہ ہی مراد تھا۔ اس نوجوان کا نام الطاف حسن قریشی تھا۔ جس نے ایم کے پرچے میں ایک سوال پر یہ جواب لکھا تھا۔ یہ بات پہلے پتہ نہیں تھی۔ عارف نظامی کے اس مضمون سے پتہ چلی جو نئی کتاب الطافِ صحافت میں شامل ہے۔ یہ کتاب نامور ادیب طاہر مسعود نے مرتب کی ہے۔ ٭٭٭٭٭کتاب پر تبصرے کا یہ آغاز کچھ زیادہ ہی سیاسی لگتا ہے لیکن الطاف حسن قریشی کثیر الجہات شخصیت ہیں اور ایک جہت سیاسی بھی ہے اس لئے آغاز کچھ غلط بھی نہیں۔ ان کی اصل پہچان بہرحال مدیر کی ہے۔ مدیر سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوئے ہیں لیکن ان جیسے کم۔ مدیر کا لفظ آیا ہے تو کچھ اس حوالے سے واردات ذاتی کا تذکرہ بھی غیر دلچسپ نہیں ہو گا۔ یہ لفظ پرائمری سکول بلکہ دوسری جماعت کے زمانے سے ہی سحر کار تھا۔ بچوں کے سات آٹھ رسالے ہم لوگ پڑھتے تھے۔ پانچ چھ تو پاکستان سے چھپتے تھے، دو بھارت سے ڈاک میں آتے تھے۔ ہر رسالہ ایک جادونگری کی طرح تھا اور ہر جادو نگری کے قلعہ دار کا نام مدیر کے طور پر چھپتا تھا۔ اور یہ لفظ بذات خود ایک طلسم بن گیا تھا۔ مدیر کیسا ہوتا ہے۔ یہ دیکھنے کی تمنا تھی۔ تمنا ساتویں جماعت میں پوری ہوئی جب پہلی بار کسی مدیر کو دیکھا اور اس سے مصافحہ بھی کیا۔ اگرچہ یہ مدیر کسی جادونگری کا قلعہ دار نہیں تھا۔ مضمون نگاری کے ایک مقابلے میں پہلا انعام مجھے ملا تھا۔ تقسیم انعامات کے لئے لاہور سے ملک نصراللہ عزیز تشریف لائے۔ وہی مدینہ بجنور، پھر ایشیا اور شبنم لاہور کے ایڈیٹر۔ دو تین سال بعد 1972ء میں آغا شورش کاشمیری حیدر آباد تشریف لائے۔ یہ دوسرے مدیر تھے جنہیں دیکھنے کا موقع ملا۔ آج کے مستند مورخ اور مصنف موسیٰ بھٹو کی قیادت میں ان سے ملا۔ کچھ نوعمر صحافی اور سینئر طالب علم اس میں شامل تھے۔ ایک جونیئر کی جگہ خالی تھی جو میں نے پرکی( کم از کم زندگی کا ایک خلا میری بدولت پر ہوا) تیسرے مدیر جیلانی بی اے تھے۔ وہ مدیر سے زیادہ ادیب، ادیب سے زیادہ دانشور اور اس سے بھی زیادہ عارف باللہ تھے۔ ہاں اس سے پہلے ایک اور مدیر کی زیارت بھی ہوئی۔ تب چار سال کی عمر تھی اور یہ مدیر ماہر القادری تھے جو ہمارے ہاں آئے تھے اور دو روز قیام کیا۔ اس وقت کیا پتہ تھا کہ ماہر القادری کون ہیں اور مدیر کیا ہوتا ہے۔ بہرحال وہ ماہر القادری تھے اور ایسے کہ بقول شخصے ایکسپرٹ آف آلمائٹیExpert of Almighty۔ جادو نگریوں کی سیر کا سلسلہ تیسری جماعت میں اردو ڈائجسٹ تک جا پہنچا۔ بچوں کے رسالے تو بہت دور کہیں رہ گئے۔ اردو ڈائجسٹ بطور قاری تعلق جاری ہے۔ اتفاق دیکھیے، لاہور آئے عشرے بیت گئے۔ الطاف حسن قریشی سے ملاقات کی سعادت محض چند برس پہلے حاصل ہوئی۔ گویا یہ پانچویں مدیر ہوئے۔ ٭٭٭٭٭1959ء میں جس نوجوان طالب علم نے ایم اے کا امتحان دیا تھا وہ اگلے ہی برس ایک ایسا جریدہ جاری کرنے والا تھا جسے دیکھتے ہی دیکھتے اردو کے سب سے بڑے، مقبول، معتبر اور لوگوں کی "علّت" بننے کا اعزاز ملنا تھا۔ حتمی طور پر ایک بات یہ کہ اردو ڈائجسٹ کسی اور نام سے چھپنے والے رسالے کا نام بدل کر یعنی ڈیکلریشن تبدیل کرا کے جاری کیا گیا تھا لیکن اس نام سے ایک رسالہ پہلے بھی جاری ہو گیا تھا اور چند ایک شماروں کے بعد بند بھی ہو چکا تھا۔ اس گمنام اور غیر معروف اردو ڈائجسٹ کا ایک پرچہ میرے پاس محفوظ ہے۔ کتاب "الطاف صحافت" میں ستر سے زیادہ مضمون شامل ہیں۔ الطاف حسن قریشی کی زندگی اور شخصیت کثیر الجہات اور کثیر الصفات ہے۔ وہ ادیب بھی ہیں، دانشور اور فلسفی بھی۔ بہت اچھے نثار بھی اور صاحب طرز شاعر بھی اور شاعری کے لئے تو انوکھی بات یہ ہے کہ ان کی شاعری اردو میں ہوتی ہے۔ ورنہ پاکستان میں اردو شاعر کہاں ملتا ہے۔ احباب پنجابی میں شاعری کرتے ہیں اور پھر اس کا منظوم اردو ترجمہ کر دیتے ہیں۔ الطاف حسن قریشی کی شاعری کی روح بھی اردو ہے، بدن اور پیرہن بھی اردو کا۔ وہ سیاسی تھنک ٹینک بھی ہیں اور مصلح اخلاق بھی۔ انہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر کئی بار زنداں کی ہوا بھی کھائی اور کثیر مالی گھاٹا بھی اٹھایا۔ وہ مقرر بھی ہیں۔ اگرچہ شعلہ بیاں نہیں بلکہ وہ ایسے مقرر ہیں۔ شعلہ طور جن میں مستور ہے۔ انڈر"بھانبڑ" مچا ہے، لب پر محض دھیمی آنچ والی لَے۔ اردو صحافت میں دو انقلاب برپا ہوئے۔ پہلا محبوب عالم نے پیسہ اخبار جاری کر کے برپا کیا، دوسرا اس کے 70سال بعد الطاف حسن قریشی لائے۔ آپ نے کراچی سے "جنگ" کی ٹکر کا اخبار جسارت بھی جاری کیا جو اگلے سال ہی بھٹو شاہی کے گرداب میں پھنس گیا۔ کتاب میں آپ کی شخصیت کے ہر پہلو پر مضمون آ گئے ہیں۔ افسوس ضمیر جعفری بہت پہلے چل بسے۔ شاہد احمد دہلوی کو چھوڑ کر ان جیسا خاکے لکھنے والا اور کوئی نہ ہوا۔ زندہ ہوتے تو الطاف حسن قریشی کا خاکہ لکھتے جو اس کتاب میں چھپتا۔ کتاب میں اور کوئی کمی نہیں ہے، بس یہی ایک خاکے والی کمی رہ گئی۔