روس کا عفریت یوکرائن میں اپنے بال و پر سے بتدریج محروم ہو رہا ہے، اس کے پنجے جھڑ رہے ہیں اور سانس پھولنا شروع ہو گیا ہے۔ یوکرائن کو اس نے کھنڈر بنا دیا ہے، ہولناک اور نہ تھمنے والی بمباری سے ہنستے بستے شہر اور قصبے ویرانوں میں بدل گئے ہیں جہاں سے انسان رخصت ہو گئے ہیں اور گلیوں میں بلیاں اور کتے بھی بھوک سے نڈھال سرگرداں ہیں، حیران اور خوفزدہ ہیں کہ لوگ کہاں چلے گئے، شہر خالی کیوں ہو گیا، یوکرائن کا کم و بیش سارا انفراسٹرکچر روس کے شوقِ خونریزی نے برباد کر ڈالا ہے اور اس کی فوج وہ سب کچھ کر رہی ہے جو سوویت یونین نے افغانستان میں کیا تھا۔
معلوم ہوا کہ وہ بھی سوویت یونین نہیں تھا، روس تھا جس نے افغانستان کو خون میں نہلایا۔ سوویت یونین کے پردے میں بھی زار کا روس سرگرم عمل تھا، اب سوویت کا پردہ اٹھ گیا، زار کا روس پھر نکل آیا۔ شام اور افغانستان کی طرح یوکرائن میں بھی روس کا پسندیدہ ہدف وہ مقامات ہیں جہاں بچوں اور عورتوں نے پناہ لے رکھی ہو۔ تاک کر نشانہ بناتا ہے اور انہیں زندہ جلا دینے والی موت کی نذر کر دیتا ہے۔
تازہ ترین حملہ اس نے ماریو پول کے شہر میں اس سینما پر کیا جہاں ایک ہزار عورتیں اور بچے پناہ لئے ہوئے تھے، یہ سوچ کر کہ یہ نہ تو فوجی عمارت ہے نہ کارخانہ اور نہ ہی مواصلاتی مرکز، یہاں بمباری نہیں ہوتی۔ لیکن پیوٹن کو تو ایسی ہی جگہ مرغوب ہے۔ تاک کر خطرناک بم گرائے اور آن کی آن میں 300عورتیں اور بچے مار دیے، باقی زخمی ہو گئے۔
یوکرائن میں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے، محض ایک فیصد، شاذ ہی کہیں مسجد نظر آتی ہے لیکن دو ہفتے پہلے اس نے ایک مسجد پر بمباری کی اور سارے نمازی شہید کر دیے۔ یاد ہو گا، شام میں بھی "داعش" کے نام پر اس نے مساجد اور مدرسوں کو خصوصی نشانہ بنایا تھا۔ حضرت الامیر جناب ولادیمیر کا مرغوب ترین شکار مسلمان ہیں، چاہے وہ شام میں ہوں یا یوکرائن میں۔ داد دینی چاہیے کس طرح ایک بڑے شہر میں، الگ تھلگ اور اکلوتی مسجد کو ڈھونڈ نکالا۔
٭روس کی بمباری بہت مہیب ہے لیکن صرف وہ بمباری جو بمبار طیاروں سے کی جائے۔ میزائل اس کے اکثر نشانے پر نہیں گرتے، گرتے ہیں تو پھٹتے نہیں۔ مغربی دفاعی مبصرین نے تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے کہ یوکرائن کی جنگ میں اس کے داغے گئے 80فیصد میزائل بے کار گئے۔ بہت پہلے عراق ایران جنگ، پھر امریکہ عراق جنگ اور کچھ پہلے شروع ہونے والی یمن جنگ میں دنیا اس کے سکڈ میزائلوں کی بھد اڑتے دیکھ چکی ہے، خیر سے اس کے باقی میزائل بھی ایسے ہی نکھد ہیں اور کچھ ایسا ہی حال اس کے ٹینکوں کا ہے۔
یوکرائن کی کھنڈر بنی سڑکوں پر روسی ٹینکوں کے جلے ہوئے ڈھانچے قطار اندر قطار کھڑے نظر آتے ہیں۔ یوکرائنی حریت پسندوں نے ایسے درجنوں قافلوں پر تباہ کن حملے کئے اور ٹینک پلاسٹک کے کھلونوں کی طرح جل اٹھے۔ روسی ہیبت اور غرور ان حریت پسندوں نے پاش پاش کر کے رکھ دی ہے۔ جنگ چھڑے ایک مہینہ سے اوپر ہو گیا۔
روس نے حملہ کے پہلے دن ہی اعلان کیا تھا کہ دارالحکومت کیف پر ہمارا قبضہ اگلے 24گھنٹوں میں ہو جائے گا لیکن ایک مہینہ اور دو دن اوپر ہونے کے باوجود روسی فوج کیف سے اتنی ہی دور ہے جتنی پہلے دن تھی۔ تازہ ترین وقوعہ (سانحہ) یہ ہوا کہ مضافات کے جس مقام پر روسی فوج پہلے دن یلغار کرتے ہوئے پہنچ گئی تھی، چھاپہ ماروں نے اسے وہاں سے کھدیڑ دیا ہے اور جس جنرل نے اس مضافات میں کھڑے ہو کر دعویٰ کیا تھا کہ بس چند محض چند گھنٹے اور کیف ہمارا ہو جائے گا، وہ مارا گیا ہے۔ جنرل یوکوف ریزن تساف ایک مہینے کے اندر اندر مارا جانے والا ساتواں روسی جنرل ہے۔ اتنے جنرل افغانستان میں بھی نہیں مارے گئے تھے۔
یوکرائن کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ 20ہزار روسی فوجی جنگ میں مارے جا چکے لیکن نیٹو نے سرکاری طور پر کہا ہے کہ ایک مہینے میں مارے جانے والے روسی فوجیوں کی تعداد 12سے 14ہزار ہے۔ افغانستان کی ساری جنگ میں اتنے روسی فوجی نہیں مارے گئے تھے۔ روس کے ہزاروں ٹینک بکتر بند گاڑیاں اور توپ گاڑیاں تباہ ہو چکے ہیں، مار گرائے جانے والے ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ایک مغربی اخبار نے لکھا؛یوکرائن والوں کی مزاحمت ناقابل یقین ہے اور امریکہ کو بھی اس کی توقع نہیں تھی اور پیوٹن کے تو خواب و خیال میں بھی نہیں تھی۔
٭اطلاعات شائع ہوئی ہیں کہ افرادی قوت کی کمی کا شکار روس اب بچوں کو زبردستی لام بند کر رہا ہے۔ شام سے عربی رضا کار بھی یوکرائن بلائے گئے اور ان سب کا صفایا ہو گیا جس کے بعد مزید رضا کار آنے بند ہو گئے۔ چیچنیا کے میر جعفر، کٹھ پتلی صدر رمضانوف نے جو فوج بھیجی تھی وہ نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی واپس آ گئی ہے۔ روس کی معیشت ایک مہینہ میں 30فیصد تک نابود ہو گئی ہے، شہریوں کو ڈبل روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ عالمی پابندیوں نے نام نہاد، سپر پاور کے کس بل نکالنا شروع کر دیے ہیں لیکن پیوٹن ڈٹا ہوا ہے اسے یقین ہے کہ وہ بالآخر یوکرائن فتح کر لے گا اور روس کے اندر باغیانہ لہروں پر بھی قابو پا لے گا۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
٭روس کے پاس کل فوج گیارہ بارہ لاکھ کی ہے۔ اس میں سے ڈیڑھ پونے دو لاکھ اس نے یوکرائن میں لگا رکھی ہے۔ 5کروڑ کی آبادی والے یوکرائن کا رقبہ بالکل افغانستان کے برابر ہے اور اس کی فتح اور تسخیر کے لئے اتنی فوج کافی نہیں ہے لیکن روس کے لئے مزید فوج بھجوانا مشکل ہے اس لئے کہ روس رقبے کے اعتبار سے بہت پھیلا ہوا ملک ہے۔ اسے وہاں اور تمام بارڈر لائن پر بھی فوج رکھنا ہے۔
اندازہ کیجیے، 9ہزار کلو میٹر لمبائی اور 5، 4ہزار کلو میٹر چوڑائی والے روس کا رقبہ پونے دو کروڑ مربع کلو میٹر ہے۔ بیشتر رقبہ ویرانوں پر مشتمل ہے لیکن فوج تو رکھنا پڑتی ہے۔ ہزاروں میل لمبے شمالی اور مشرقی ساحل اور ہزارہا میل لمبی سرحدوں پر جابجا چوکیاں اور فوجی ناکے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر کہ روس کے تمام شہروں کو فوج کے حوالے کر رکھا ہے۔ ذرا سی ڈھیل ہوئی اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے۔
عوامی بے چینی حد سے زیادہ ہے جو فوج کے زور پر دبا کر رکھی گئی ہے۔ یوکرائن پر حملے کے فوراً بعد روس کے تمام شہروں اور قصبوں میں بڑے بڑے جلوس نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ جن کو بے رحمانہ طریقے سے کچل دیا گیا اور دسیوں ہزار افراد گرفتار کر لئے گئے۔ (جاری ہے)