روس کے پاس کل فوج گیارہ بارہ لاکھ کی ہے۔ اس میں سے ڈیڑھ پونے دو لاکھ اس نے یوکرائن میں لگا رکھی ہے۔ 5کروڑ کی آبادی والے یوکرائن کا رقبہ بالکل افغانستان کے برابر ہے اور اس کی فتح اور تسخیر کے لئے اتنی فوج کافی نہیں ہے لیکن روس کے لئے مزید فوج بھجوانا مشکل ہے اس لئے کہ روس رقبے کے اعتبار سے بہت پھیلا ہوا ملک ہے۔ اسے وہاں اور تمام بارڈر لائن پر بھی فوج رکھنا ہے۔
اندازہ کیجیے، 9ہزار کلو میٹر لمبائی اور 5، 4ہزار کلو میٹر چوڑائی والے روس کا رقبہ پونے دو کروڑ مربع کلو میٹر ہے۔ بیشتر رقبہ ویرانوں پر مشتمل ہے لیکن فوج تو رکھنا پڑتی ہے۔ ہزاروں میل لمبے شمالی اور مشرقی ساحل اور ہزارہا میل لمبی سرحدوں پر جابجا چوکیاں اور فوجی ناکے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر کہ روس کے تمام شہروں کو فوج کے حوالے کر رکھا ہے۔ ذرا سی ڈھیل ہوئی اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے۔
عوامی بے چینی حد سے زیادہ ہے جو فوج کے زور پر دبا کر رکھی گئی ہے۔ یوکرائن پر حملے کے فوراً بعد روس کے تمام شہروں اور قصبوں میں بڑے بڑے جلوس نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ جن کو بے رحمانہ طریقے سے کچل دیا گیا اور دسیوں ہزار افراد گرفتار کر لئے گئے۔ تمام اندازے بتاتے ہیں کہ روس کے اندر یوکرائن پر حملے کی حمایت کہیں بھی موجود نہں۔
صدر پیوٹن کو اپنی زندگی خطرے میں نظر آتی ہے۔ کچھ دن پہلے اس رپورٹ کے بعد کہ ان کے سکیورٹی حلقے میں سے کوئی انہیں زہر دے سکتا ہے۔ پیوٹن نے ذاتی سٹاف بدل دیا جس کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی اب نئے لوگ رکھے گئے ہیں پھر بھی پتہ کھڑکے دل دھڑکے والا معاملہ ہے۔ پیوٹن کا سارا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے اور اب وہ یوکرائن کا تصفیہ چاہتا ہے لیکن امریکہ اور یورپ کی خواہش ہے کہ روس اس میں پھنسا رہے۔
وہ یوکرائنی فوج کو میزائل شکن نظام، ڈرون طیارے اور دوسرے ہتھیار دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے مزاحمت طاقتور ہو گئی ہے، روس اب میزائلوں کے بجائے ڈرون حملوں کی تعداد بڑھا رہا ہے لیکن روس کے ڈرون طیارے بھی اتنے اچھے نہیں ہیں، آذر بائیجان آرمینیا کی جنگ میں ترکی کے ڈرون طیاروں نے روسی اسلحہ کے بڑے بڑے قافلے تہس نہس کر دیے اور اس کے ڈرون طیارے آرمینیا کے کسی کام نہ آئے۔
روس اصطلاحی طور پر "سپر پاور" ہے لیکن عملی طور پر وہ ہرگز سپر پاور نہیں ہے۔ اس کی فوج اپنی شان و شوکت کے عروج پر یعنی جنگ عظیم دوئم میں بھی نہیں لڑ سکی تھی جرمن فوج برف میں پھنس کر ماری گئی، امریکہ نے جرمنی کو تہس نہس کر ڈالا۔ تب سرخ فوج برلن میں داخل ہوئی تھی۔ یہ کھنڈرات کو فتح کرنے والی بات تھی لیکن یوکرائن کے تو کھنڈروں سے بھی مزاحمت برآمد ہو گئی ہے۔ اب تیرا کیا بنے گا حضرت الامیر ولادی میر۔
ہر ملک کی عالمی شہرت کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض مثبت، کچھ منفی، روس کی بڑی حد تک مثبت وجہ شہرت اس کے چار پانچ عالمی سطح کے ادیب ہیں اور ان میں سب سے نمایاں ٹالسٹائی ہیں۔ انہوں نے روس پر نپولین کے حملے کی کہانی دو جلدوں میں "وار اینڈ پیس" کے نام سے لکھی۔ پہلی جلد میں اس نے بڑا عجیب فلسفہ بیان کیا ہے۔ تین صفحات ہیں، نقل ممکن نہیں لیکن خلاصہ اس طرح کا سوال ہے کہ لوگ کہتے ہیں۔
نپولین ماسکو پر حملہ نہ کرتا تو پھر وہ سب کچھ نہ ہوتا جو ہوا لیکن سوال ہے کہ وہ کیوں نہ حملہ کرتا، اس نے حملہ کرنا ہی تھا، اس لئے کہ یہ طے تھا۔ اس طرح کے اور سوال بھی اٹھائے۔ مطلب یہ ہے کہ سب جبر ہے، قدر کچھ بھی نہیں۔ پتہ نہیں اس کی بات جوں کی توں مان لینی چاہیے یا نہیں۔ بہت بعد کے سوال یوں ہو سکتے تھے کہ گوربا چوف نہ ہوتا تو سوویت یونین تباہ نہ ہوتا۔
ٹالسٹائی کے فلسفے کے حساب سے گوربا چوف کیوں نہ آتا، اس نے آنا ہی تھا۔ اور آج کے سوال کا جواب یوں ہے کہ نپولین یوکرائن پر حملہ کیوں نہ کرتا، اس نے کرنا ہی تھا۔ جبر ہے، قدر کہاں ہے۔ واقعی!بہرحال صداقت یہی ہے کہ انسان کی پوری تاریخ جنگ سے عبارت ہے۔ ہزار ہا جلدوں پر مشتمل تاریخ محض آدھی جلد میں سما جائے، اگر جنگیں نہ ہوتیں۔ کوئی فلسفی نہیں بتا پایا کہ انسان جنگ کیوں کرتا ہے، اسے کیا ملتا ہے۔
اقتصادی علوم کے ماہر مالتھس نے اس کی جو وجہ بتائی ہے، وہ "جبر" والی ٹالسٹائی کی بات کی تصدیق کرتی ہے۔ کہتا ہے جب آبادی بڑھتی ہے تو قحط پڑتے ہیں، حادثات ہوتے ہیں، آفات نازل ہوتی ہیں، وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں اور جنگیں ہوتی ہیں۔
گویا کوئی اور ہاتھ فیصلہ کرتا ہے کہ یہاں آبادی کا دبائو کم کرنا ہے اور یہ فیصلہ بھی وہی کرتا ہے کہ زلزلہ لانا ہے یا سیلاب یا جنگ برپا کرنی ہے۔ ایسا ہے تو پھر انسان کے اندر شیطان کی موجودگی کا ذمہ دار پھر کون ہے؟ انسان یا وہی "جبر"۔
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
٭سیاست پل پل رنگ بدل رہی ہے، پھر بھی ایک بے رنگی ہے۔ بھلا بدلتے رنگ بے رنگ کیسے ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہو رہا ہے۔ ایک ہرا طوطا نظر آتا ہے۔ شکاری گرفت میں لینے کے لئے کئی حربے آزماتا ہے۔ اس ڈالی سے اڑ کر اُس ڈالی پر بیٹھنے والا ہریل بڑی مشکل سے قابو آتا ہے تو اس کا رنگ کچھ اور نظر آنے لگتا ہے، جس رنگ کی وجہ سے پکڑا گیا جب وہ باقی نہ رہا تو کیا فائدہ۔
وعدے، ترغیبات، سلام دعا، منت، ترلے، سب جتن کئے جا رہے، طوطے کا رنگ واپس نہیں آ رہا۔ بڑے حکیموں سے مشورہ کیا گیا ہے۔ پرندوں کے ڈاکٹر سے رہنمائی لی جا رہی ہے۔ طوطا پکڑنے والے نے ضد پکڑ لی ہے کہ ہرا رنگ واپس لے کر آنا ہے۔ سارا گائوں اس جیسا ہے۔ کوئی اسے یہ نہیں بتا رہا کہ طوطا تو ہرا ہی ہے، ایک بار آنکھوں کا معائنہ کرا لو، جو پل پل میں رنگ بدل لیتی ہیں۔