دو تین دن پہلے کراچی میں ایک سیاسی جلوس کے دوران بے چارے گدھے کی شامت آ گئی۔ سیاسی جلوسوں میں گدھوں اور کتوں کو ماڈل بنا کر دل کی بھڑاس نکالنے کا طریقہ بہت پرانا ہے اور پاکستان کے شاندار کلچر کا لازمی حصہ لیکن اس گدھے کے ساتھ کچھ زیادہ ہی ظلم کیا گیا۔ ڈنڈے سے اگلے دو پائوں باندھ کر اسے پچھلے دو پیروں پر گھسیٹا گیا اور گاہے گاہے ڈنڈے بھی برسائے گئے۔ گدھے کی آنکھوں میں خوف کی انتہا تھی اورحیرت بھی کہ اسے کس جرم کی اتنی زیادہ سزا دی جا رہی ہے۔
جلوس ختم ہو گیا، مظلوم گدھے کو بھی رہائی مل گئی لیکن وہ کئی روز تک ٹراما میں رہے گا۔ ٹراما سے گزرنا محض انسان کے لیے خاص نہیں ہے، جانوروں کی تمام حسیات بھی انسانوں جیسی ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر انسانوں کو اس کا علم یا احساس نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پختونخوا میں کسی ہار جانے والے امیدوار نے ایک کتے کو پکڑا، اسے باندھا، اس پر مخالف امیدوار کا نام لکھا، پھر ڈنڈوں سے مارا اور آخر میں اس پر دو گولیاں چلا دیں۔ گولیاں ایسے زاویے سے لگیں کہ بے چارے کی جان بہت تکلیف سے نکلی۔ ایسی کربناک چیخیں مرنے سے پہلے اس کے منہ سے نکلیں کہ خدا کی پناہ۔ پولیس نے ملزم گرفتار کر لیے، دو ہی دن بعد چھوٹ گئے۔
سکول کے زمانے کی ایک یاد تازہ ہو گئی۔ ایوب خان کے خلاف ہر روز جلوس نکلتے۔ ایک چھوٹا سا جلوس سو پچاس آدمیوں کا ہمارے محلے سے بھی نکلا۔ میں دور کھڑا دیکھ رہا تھا کہ ایک کتے کی چیخیں سنائی دیں۔ قریب گیا تو ایک کتے پر سابق صدر کا نام لکھا تھا اور لوگ اسے ڈنڈے مار رہے تھے۔ دل دہل گیا۔ بے اختیار چاہا کہ انہیں روکوں لیکن میں تو محض ایک کم عمر لڑکا تھا اور وہ سب بڑے ڈیل ڈول کے لوگ سہم کر رہ گیا کہ روکا تو ڈانٹ دیں گے۔ اتنے میں دیکھا کہ لوگ اسے نہیں مار رہے تھے، اس کے آس پاس زمین پر ڈنڈے چلا رہے تھے۔ اتنی رحم دلی تو انہوں نے دکھائی لیکن کتے کو اس سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا تھا، وہ بری طرح سہما ہوا تھا اور لگتا تھا کہ ڈر کے مارے ہی مر جائے گا۔ پھر کوئی بزرگ آگے بڑھا اور اسنے کتنے کو رہائی دلوا دی۔
جانوروں کو ماڈل بنانا کیسی دانشمندی ہے، میری کمزور دانش یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ مخالف کو کتا گدھا بنانا ہے تو ان جانوروں کے پتلے بنالو، پھر جتنا چاہو مارو، بھلے سے آگ لگا دو لیکن زندہ جانور کو اس طرح اذیت دینا کہاں کی سیاست ہے۔
٭اور کل ہی کی یہ خبر ہے کہ لبنان کی آبادی بقاع میں ایک خاتون نے رستے میں بیٹھے کتے پر اپنی بندوق خالی کردی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کتا ان کی طرف لپٹا ہوا ہے، خاتون آتی ہے اور بندوق سے اسے گولی کا نشانہ بناتی ہے۔ کتا زخم کھا کر بھاگتا ہے تو خاتون دوسری گولی چلاتی ہے، کتا تیزی سے بھاگتا ہے لیکن چند قدم جا کر گر جاتا ہے۔ خاتون اس پر باقی گولیاں بھی چلا دیتی ہے۔ بعدازاں خاتون اپنے اس عجیب کارنامے پر خوش ہو کر اتنے قہقہے لگاتی ہے کہ لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔
بعدازاں سوشل میڈیا پر لوگوں نے بہت احتجاج کیا لیکن ایسی کوئی خبر نہیں ہے کہ اس خاتون کو گرفتار کرلیا گیا ہو۔ پتہ نہیں لبنان میں جانوروں کا قتل کوئی جرم ہے بھی کہ نہیں۔ لبنان کے لوگ اپنی غیر انسانی صفات کے عالم میں مشہور ہیں۔ چار پانچ عشرے پہلے تک یہاں ایسی سر بلکہ چہار فریقی خانہ جنگی ہوئی تھی کہ لوگوں نے اپنا ملک انسانی وجود سے تقریباً خالی کردیا تھا۔
٭کتے اور بلیاں ایشیائی اور افریقی ممالک میں لوگوں کے ظلم کا مستقل نشانہ ہیں۔ خدا نے یہ جانور انسانی آبادیوں میں پیدا کئے تو سننا یہ تھا کہ ان بے زبانوں کا کھانا پینا تمہارے ذمے ہے۔ یہ ننھے منے بے کس جانور صبح سے رات تک کوڑے کے ڈھیروں سے کھانا تلاش کرتے ہیں، پھر کہیں جا کر یہ بمشکل پیٹ بھر پاتے ہیں۔ اوپر سے ہر آنے جانے والے کا خوف، کیا پتہ کون سا آنے والا پتھر مار پھینکے یا ٹھڈا مار دے۔ تمام عمر کا خوف، تمام عمر کی بھوک، گدھا دن بھر مال کی روزی روٹی کے لیے مشقت کرنے پر مجبور ہے۔ بڈھا ہو جاتا ہے تو مالک اسے لاوارث چھوڑ دیتا ہے۔
مشرقی ممالک میں ماسوائے بھارت اورترکی کے ان جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی موثر ادارہ موجود نہیں۔ پاکستان میں بھی ایک ادارہ انسداد بے رحمی حیوانات ہے لیکن بہت کم اس کی مداخلت نظر آتی ہے۔ مغربی ممالک میں جانوروں کی بہبود اور حقوق کے تحفظ کے لیے ان گنت ادارے بن گئے ہیں اور بھارت میں بھی لیکن پاکستان میں اب کہیں جا کر محض ایک ادارہ وہ بھی کراچی کی حد تک بنا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی جانوروں کے لیے خدا کا پیغام اس شعر میں پہنچا گئے ہیں کہ ساری مخلوق کنبہ خدا کا، مزید فرمایا، کرو مہربانی تم اہل زمین پر، خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر۔
٭دکھی انسانیت کی بے مثال خدمت کرنے والے عبدالستار ایدھی مرحوم کی بیوہ محترمہ بلقیس ایدھی جنہیں ان کے عقیدت مند بلقیس امی کہا کرتے ہیں، چل بسیں۔ اپنے خاوند کی طرح وہ بھی دیوتا صفت تھیں، دیوی صفت کہہ لیجئے۔
ایدھی اور ان کی اہلیہ اپنی خدمات کے لیے دنیا بھر میں بے مثل ہیں۔ افسوس کہ کچھ عناصر ان کی بھی کردار کشی کرتے رہے۔ ایدھی اور بلقیس کا نام دنیا بھر میں احترام سے لیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں انسانیت کی خدمت بھی معاف نہیں کی جاتی۔