Ziker Kuch Mas Khori Ka
Abdullah Tariq Sohail92 News706
بھارتیہ جنتا پارٹی کے کسی لیڈر نے پنڈت نہرو کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ شاکا ہاری نہیں ہے، ماس خور تھے۔ ہو سکتا ہے، بی جے پی کے لیڈر نے یہ الزام پنڈت جی کی مخالفت میں لگا دیا ہو اور غلط ہو۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لوگ نہرو خاندان اور کانگرس کے بعض لیڈروں کے سخت خلاف ہیں کیونکہ بقول ان کے یہ لوگ مسلم نواز رہے ہیں۔ چنانچہ وہ ان پر کوئی بھی الزام لگا سکتے ہیں لیکن اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے برہمن ماس کھاتے ہیں اور مچھلی بھی اور مچھلی سے مراد صرف مچھلی نہیں، ہر طرح کی سمندری مخلوق، جھینگا، کیکڑا اور لابسٹر وغیرہ سب اسی میں ہیں۔ اگرچہ ایسے برہمنوں کی اکثریت نہیں لیکن پھر بھی ماس خور برہمن اتنے کم بھی نہیں۔ بھارت کے تیزی سے ترقی کرتے جگمگاتے چھوٹے بڑے سینکڑوں شہروں میں برگر اور پیزا کے کارخانے اور دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ کیا ان کے سارے گاہک مسلمان ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا18سے 20کروڑ مسلمانوں کی اکثریت اتنی غریب ہے کہ گوشت کھاہی نہیں سکتی۔ مشکل سے دو کروڑ آبادی مسلمانوں کی ایسی ہو گی جو یہ عیاشی کر سکتی ہو۔ برگر اور پیزا ہٹ جن گاہکوں سے بھرے رہتے ہیں ان میں مسلمان کتنے ہوتے ہیں کوئی بھی بتا سکتا ہے ان کے علاوہ لاتعداد ریسٹورنٹ، ڈھابے اور تندور شاپس ہیں، صرف ایک مختصر سی تعداد کو چھوڑ کر نان ویج ہیں۔ یہ تو مڈل اور اپر مڈل کلاس کے لوگ ہیں۔ لوئر مڈل اور مطلق لوئر کلاس کے لیے ملک کے کونے کونے میں مرغ بریانی کے نام پر کوا بریانی کے لاکھوں کھوکھے ہیں کیا ان کے سبھی گاہک مسلمان ہیں؟ بھارت میں صرف مرغ(چکن) جتنی مقدار میں کھایا جاتا ہے، اسی کو دیکھ لیں۔ ہر سال ساڑھے چار ملین یعنی 44لاکھ میٹرک ٹن مرغ ذبح ہوتا ہے۔ (کوا بریانی کے کوے کسی اعداد و شمار میں شامل نہیں ) اس کے علاوہ مچھلی جھینگا وغیرہ الگ ہے۔ گائے کاٹنے پر تو پابندی لگ گئی لیکن بکرے، بھینسیں بدستور کٹتے ہیں۔ بیف کھانے والوں کی اکثریت ہندو ہے۔ ہندو دھرم کے مطابق کسی بھی قسم کا ماس کھانا منع ہے۔ نہ صرف ماس بلکہ انڈا بھی لیکن مذہب پر عمل کرنے والے کتنے ہیں۔ ہندو دھرم میں تو یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو مت مارو، پھر بھی کتنے مسلمان ہر سال مار دیے جاتے ہیں۔ مراٹھوں کے دیس اور گجرات کے ہندو البتہ مذہب پر عمل کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو مارتے نہیں، بس زندہ جلا دیتے ہیں۔ ان کی ہتیا کا دوش پھر اگنی دیوی پر ہوا، ہندو تو نردوش ٹھہرے۔ مزے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہندو گوشت نہیں کھاتے، اور اسی لیے جس نواز شریف نے کہا کہ بھارت والے بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی تو انہیں غداری کے ساتھ ساتھ جاہل ہونے کا تمغہ بھی دیا گیا۔ اوپر جن ماس خوروں کی بات ہوئی وہ تو دھرم کا پالن نہیں کرتے لیکن جاننے والوں کو پتہ ہے کہ ہندوئوں کے کئی فرقے ایسے ہیں جو اس حکم کو مانتے ہی نہیں۔ مثلاً کائستھ، مزید مثلاً شودر اور دیگر نیچی ذاتوں والے جو لاکھوں میں نہیں۔ کروڑوں میں ہیں، اتنے زیادہ کہ آدھے سے کچھ ہی کم سارے بھارت کیآبادی انہی کی ہے۔ یہ لوگ چیل کوے سے لے کر کتے تک اور ہاتھی گینڈے سے لے کر سانپ اور چوہے تک ہر شے کھا جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ مردار بھی۔ شمالی بھارت میں سادھوئوں کے ایسے فرقے بھی ہیں جو ننگ دھڑنگ رہتے ہیں اور ہر وقت کسی نہ کسی تنتر منتر میں لگے ہوتے ہیں۔ وہ تو انسانی لاشیں بھی کھا جاتے ہیں، پھر لاش چاہے مسلمان کی ہو یا ہندو کی، ادھ جلی چتاہی کیوں نہ ہو۔ کم از کم اس فرقے کو آپ فرقہ پرست نہیں کہہ سکتے۔ ٭٭٭٭٭گوشت خوری میں مسلمان بدنام ہیں اور خیر، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت گوشت کھاتے ہیں اور اسلامی اصول کی نفی کرتے ہیں جس میں گوشت خوری کو محدود حد تک ہی رکھنے کا کہا گیا ہے (فرمان نبویؐ یہ ہے کہ اپنے پیٹ جانوروں کے قبرستان مت بنائو) لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ عیسائی اور ان سے بھی زیادہ چینی گوشت کھاتے ہیں۔ عیسائی قوموں میں امریکہ جتنا گوشت کھاتا ہے اس کا مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک امریکی سال بھر میں 279کلو گوشت کھا جاتا ہے۔ غریب اور بے روزگار امریکی جو اتنا گوشت کھانے سے قاصر ہیں پھر کئی ملین امریکی سبزی خور ہیں، گوشت نہیں کھاتے ان کے ساتھ شیر خوار بچوں کو بھی الگ کر لیا جائے۔ تو یہ فی کس اوسط اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ امریکی لوگ گائے، سور، چکن اور ٹرکی(ایک بڑا پرندہ) بہت کھاتے ہیں۔ اس کے بعد بھینس کا گوشت، پھر مچھلی، جھینگا وغیرہ۔ سائنس دان انہیں کہتے ہیں کہ گوشت کم کھائو، مش روم زیادہ کھائو۔ ان کے اس مشورے پر انہوں نے یوں عمل کیا ہے کہ مش روم بھی زیادہ کھانے لگے لیکن گوشت کی مقدار بھی کم نہیں کی۔ چین میں سالانہ فی کس گوشت خوری کی مقدار گزشتہ چند عشروں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ لوگ دنیا کی ہر زندہ شے کھا جاتے ہیں۔ جب سے شہروں میں فی کس آمدنی بڑھ گئی ہے، چینی قوم دنیا کی "خونخوار ترین" قوم بن گئی ہے۔ ایک تو ان کی آبادی بے پناہ ہے، پھر جنگلی جانور جا بجا اتنے زیادہ ہیں کہ غریب لوگ بھی تیر تلوار سے مار کر کھا جاتے ہیں۔ یا جوج ماجوج کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ وہ ہر شے کھا جائیں گے۔ دنیا بھر میں لوگ کتنا گوشت کھا جاتے ہیں، اس کا صحیح اندازہ ممکن نہیں صرف فارم والے گوشت کی گنتی موجود ہے کیونکہ ان کا ریکارڈ ساتھ ساتھ بنتا رہتا ہے۔ اس گوشت میں مرغی، بکری، بھیڑ، گائے، بھینس، سُور، بطخ شامل ہیں چنانچہ چند سال پہلے تک کے اعداد و شمار یہ تھے کہ ہر سال 56ارب جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ ذبح کا لفظ یہاں صحیح نہیں، ذبح تو صرف مسلمان ملکوں میں ہوتا ہے، غیر مسلم ملکوں میں مشینی چھرے سے سر الگ کر دیے جاتے ہیں یا سر میں گولی ماری جاتی ہے۔ (اکثر فارموں میں سور کے لیے یہی طریقہ رکھا گیا ہے، انہیں سر میں بولٹ گن سے گولی مارتے ہیں اور اکثر ان میں بھی زندہ ہوتے ہیں کہ ابلتے پانی میں ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ بال وغیرہ صاف ہو جائیں، یہاں وہ کئی کئی منٹ تک تڑپتے ہیں اور باہر آنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہے اہل یورپ و امریکہ کا احوال۔ 56ارب کی گنتی بہت بڑی ہے لیکن یہ مکمل نہیں، اس لیے کہ اس میں وہ اربوں پرندے شامل نہیں جو غیر فارمی، ہوتے ہیں اور ہر سال مار دیے جاتے ہیں۔ پھر سمندروں سے ہر سال وھیل، ڈولفن، سیل، والرس جیسے جانور اور ہر طرح کی چھوٹی بڑی مچھلیاں اربوں کی تعداد میں ماری جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال کروڑوں ایسے بکرے ذبح کئے جاتے ہیں جو دیہات میں نان، فارم شکل میں پالے جاتے ہیں۔ ان کے اعداد و شمار بھی فارم والے کھاتے میں نہیں آتے۔ پھر جنگلوں میں جا کر جو ہرن، بارہ سنگھے، نیل، پاڑے، چکارے مارے جاتے ہیں ان کی گنتی کا ریکارڈ بھی محض اندازوں کی بنیاد پر ہی بنایا جا سکتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گوشت بہت ضروری خوراک نہیں، سبزی زیادہ بہتر ہے۔ کہیں کہیں ان کے مشوروں پر عمل بھی ہوا ہے۔ ماس خوری کے خلاف سماجی تحرکیں بھی دنیا بھر میں چل رہی ہیں، پھر بھی جانوروں کی شامت میں کمی نہیں ہو رہی۔ اضافہ ہی ہوتا نظر آتا ہے شاید اسی لیے دنیا پر نازل ہونے والی آفات بھی بڑھ رہی ہیں۔