Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Abid Mehmood Azaam/
  3. 2020 Gham Ka Saal Sabit Hua

2020 Gham Ka Saal Sabit Hua

2020 رنج والم کی کئی داستانیں لیے اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ یہ سال دنیا میں کہیں دھماکوں کی گونج سے سہما رہا توکہیں زخمیوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی رہی۔ کہیں سیاست کے بوسیدہ لباس کی جگہ نئی پوشاک اوڑھی مسکراتی ہے توکہیں پرتشدد احتجاجی مظاہروں میں غم وغصہ چھایا رہا۔ 2020 جہاں دنیا بھر میں بہت سے اہم واقعات کے ساتھ اختتام کو پہنچا ہے۔

وہیں یہ سال تلخیوں، دکھ و درد، رنج و غم کے لیے یاد کیا جاتا رہے گا۔ 2020 کو خوش آمدیدکہنے والوں نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ یہ سال ان کے لیے کیا کیا امتحان لائے گا۔ اس میں کورونا وائرس نامی آفت نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا اور سماجی اور معاشی طور پر پوری دنیا کو بری طرح مفلوج کردیا۔

کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن اور طرح طرح کی پابندیوں نے پوری انسانیت کو مصیبت میں مبتلا کیے رکھا۔ کئی صنعتیں تباہ ہوئیں اور دنیا بھرکا تعلیمی نظام بری طرح متاثر ہوا۔ موت کا ذائقہ تو ہر جاندارکو چکھنا ہے، لیکن 2020 میں جس بڑے پیمانے پر اموات ہوئی ہیں، اس سے پوری انسانیت برسوں دکھ، درد، کرب اور رنج میں مبتلا رہے گی۔ کورونا وائرس سے دنیا بھر میں 8 کروڑ افراد متاثر ہوئے اور 17 لاکھ اموات ہوچکی ہیں۔ اس وبا کے علاوہ وفات پانے والوں کی تعداد الگ ہے۔

بڑی تعداد میں نامور شخصیات بھی اس وبا کا نشانہ بنیں۔ پاکستان بھی کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہوا۔ لاکھوں لوگ اس بیماری سے متاثر ہوئے اور دس ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستان 2020 میں جن مذہبی، سیاسی، ادبی اور دیگر شعبہ جات کی اہم شخصیات سے محروم ہوا، جن کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس سال بچھڑنے والی ملک کی تمام نامور شخصیات کی وفات اگرچہ کورونا وائرس سے نہیں ہوئی، لیکن بیشتر کی موت کی وجہ کورونا وائرس بنی ہے۔

معروف قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نعیم الحق، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما نعمت اللہ خان، جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم اور معروف عالم دین مفتی محمد نعیم، جامعہ احسن العلوم کراچی کے مہتمم شیخ الحدیث والتفسیر مفتی زر ولی خان، مولانا عزیزالرحمن ہزاروی، مفتی عادل خان، مولانا عبدالحلیم چشتی، علامہ طالب جوہری، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میر حاصل خان بزنجو، علامہ ضمیر اختر نقوی، تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی، سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی، سابق جج ارشد ملک، قومی اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف سردار شیر باز مزاری، پاکستان کے مایہ ناز ٹی وی کمپیئر، ادیب، شاعر اورسابق رکن قومی اسمبلی طارق عزیز، کامیڈین لیجنڈ، مزاح کے شہنشاہ امان اللہ، پاکستان کے سینئر صحافی طارق محمود، معروف کالم نگار صحافی عبدالقادر حسن، معروف صحافی و اینکرارشد وحید چوہدری، معروف ادیب اطہر ہاشمی، ممتاز خطاط خورشید عالم، پروفیسر مغیث الدین شیخ، معروف عالم دین و ادیب مولانا ابن الحسن عباسی، اردو ٖڈائجسٹ کے بانی اعجاز حسن سمیت نامور شخصیات کی ایک بڑی تعداد اس سال ہم سے جدا ہوئی ہے۔

یہ تو اس سال بچھڑنے والے نامور لوگوں کی فہرست ہے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مریضوں کے علاج کرنے والے کتنے ہی ڈاکٹرکورونا وائرس کی نذر ہوگئے۔ یہ سال اتنا سفاک ثابت ہوا کہ شاید ہی کوئی خاندان بچا ہو جس کے عزیز واقارب میں سے کوئی فوت نہ ہوا ہو۔ 2020 میں مجھے بھی اپنے عزیزوں کی وفات کے صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ بہترین استاد اور نیک انسان میرے سسر رانا محمد اکرم اور ضرورت مندوں کے ہمدرد میرے خالو رانا ریاست علی سمیت میرے کئی عزیز بھی اس سال ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت کرے۔ یہ سال غم کا سال ثابت ہوا ہے۔ یہ سال جنازوں کا سال ثابت ہوا ہے۔ یہ سال کتنے ہی گھرانوں کو اپنے پیاروں سے محروم کرگیا ہے، انھیں ہمیشہ کے غم میں مبتلا کرگیا۔

اس بات میں تو شک کی گنجائش نہیں کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے۔ بیماریاں، آفتیں اور حادثات تو بہانہ بنتے ہیں، حقیقت مگر یہ ہے کہ جب انسان کا وقت مقرر آن پہنچتا ہے تو اچھے خاصے تندرست اور صحت مند انسان بھی لمحوں میں اس فانی دنیا کو الوداع کہہ جاتے ہیں۔ موت ہر حال میں آکر رہتی ہے۔ جس نے آنا ہے، اس نے ہر حال میں جانا ہے۔ انسان کے پاس اللہ کی رضاء پر راضی رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے۔ نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی اور نہ ظالموں کو بخشتی ہے۔ جب حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی پھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔ موت کے وقوع اور طاری ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ لوگوں نے اللہ سے انکارکیا ہے لیکن موت سے نہیں، کیونکہ موت کا مشاہدہ لوگ ہر روزکرتے ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد بار موت کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔: ہر جاندارکو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (سورۃ آل عمران) اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔ (سورۃ رحمن) ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اسی کی ہے، اور اْسی کی طرف تمہیں لوٹ کرجاناہے۔ (سورۃ القصص)تم جہاں بھی ہوگے، موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔ (سورۃ النساء)

یہ دنیا ایک سرائے ہے جس میں لوگ آتے ہیں کچھ دیرکے لیے ٹھہرتے ہیں اور پھر اپنی منزل کو رواں ہو جاتے ہیں۔ کہیں ایک باپ اپنے جواں سالہ لخت جگرکی جدائی میں ماتم کررہا ہے اورکہیں ایک بیٹا اپنے باپ کی جدائی پر اشکوں کی سوغات لٹا رہا ہے، یہی زندگی ہے۔ وقت گزرتا رہے گا، لیکن جو چلے گئے ان کی یادیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ موت ایک تلخ حقیقت ہے، عمل اور تیاری کے ساتھ ہی اس تلخ حقیقت کو خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔ جو شخص زندگی کو بہترین انداز میں گزارے، اس کی زندگی کی خوشبو ہمیشہ رہتی ہے۔ زندگی میں لوگوں کے ساتھ عمدہ سلوک اور بھلائیاں ہمیشہ یاد رکھی جاتی اور دعا کا باعث بنتی ہیں۔

خدا جانے آیندہ سال کون رہتا ہے اورکون بچھڑتا ہے، لیکن یہ عزم ہم سب کوکرنا چاہیے کہ ایسی زندگی گزاریں کہ ہمیشہ اچھے الفاظ سے یادکیے جائیں، اگر ہم ایک نئے عزم کے ساتھ تہیہ کرلیں کہ ہم آج سے ہی جھوٹ، مکر، فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی، فضول گوئی، بے صبری، خودنمائی، خودستائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، دشنام طرازی، لڑائی جھگڑے، آبروریزی، ایذارسانی، نفرت، غصہ، تخریب کاری، چغل خوری، حرام کاری، ہٹ دھرمی، حرص، ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے امداد باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاس عہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم، فیاضی، فراخ دلی، صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، خود داری، شائستگی، ملنساری، فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی، احساس ذمے داری، والدین کی خدمت، بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، پا ک دامنی، خوش گفتاری، نرم مزاجی، راست بازی، فراخ دلی اور امن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے تو دنیا جنت بن سکتی ہے۔

نئے سال میں ہمیں دعا گو ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر آفت، برے وقت اور ہر شرسے محفوظ رکھے۔ نیا سال پاکستان سمیت پوری دنیا میں امن اور سلامتی کا سال ہو۔ 2021ء پوری دنیا کے لیے مسرت و شادمانی کا سال ہو۔ (آمین)

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran