امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی اور بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی انھیں مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے معاونت کا کہا ہے، اس لیے انھیں ثالث بننے میں خوشی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر اور افغانستان کا مسئلہ حل ہوگا تو پورے خطے میں خوشحالی آئے گی۔
یہ امر واقع ہے کہ افغانستان کے معاملات پر امریکا سخت الجھن کا شکار ہے، جس سے پاکستان کی معاونت سے ہی باہر نکل سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی معاونت کے ساتھ افغان جنگ سے امریکی قوم کو خلاصی دلوانے کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے۔
بدلے میں امریکی صدر ٹرمپ کو مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش میں زیادہ سہولت نظر آئی ہے، اگر اس پیشکش میں امریکی صدر مخلص ہوں اورپورے خطے کے امن واستحکام میں دلچسپی رکھتے ہوں تو مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے بھارت سے یو این قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ان کے لیے کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا، کیونکہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے استصواب کا حق دینا ہی اس مسئلہ کا اصل اور ٹھوس حل ہے۔
بھارتی سرکار توکشمیرکوکبھی آزاد کرنے کو تیار نظر نہیں آتی۔ بھارت کی تان ہی کشمیرکے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے پر ٹوٹتی ہے۔ کشمیر پر مودی سرکارکی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے فوراً بعد ہی باضابطہ طور پر اس بات کی تردیدکردی کہ مودی کی جانب سے امریکی صدرکو مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے کردار ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر امریکی صدرکی ثالثی کی پیشکش پر بھارتی میڈیا کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ کے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کے بیان سے بھارت اور امریکا کے تعلقات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ بھارتی میڈیا بھی اپنی انتہا پسندانہ قیادت کی طرح انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے بھارتی سیاسی جماعتیں بھی آپے سے باہر ہو گئی ہیں۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں نریندر مودی شرم کرو، ڈوب مرو، مودی جواب دو" کے نعرے لگائے گئے۔ امریکی صدرکی پیشکش کے بعد بھارت کے طرز عمل سے یہ امرکھل کر سامنے آگیا کہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کے حل میں سنجیدہ نہیں اور طاقت کے استعمال کی سوچی سمجھی پالیسی پرگامزن ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش اس سے پہلے امریکی صدر اوباما، یورپی یونین کے اسپیکر اور چین کے صدر کی جانب سے بھی کی جاچکی ہے لیکن بھارت کی جانب سے ایسی ہر پیشکش رعونت کے ساتھ ٹھکرائی گئی۔ امریکی ثالثی کے ذریعے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرانا اتنا آسان نہیں، جتنی آسانی سے ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کی گئی ہے۔ ٹرمپ کی کوششوں سے اگرکشمیریوں کو آزادی کی منزل حاصل ہوجاتی ہے تو یہی اس خطے کے امن و سلامتی کی ضمانت بنے گی۔
بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ثالث بنانے کی درخواست سے انکار دراصل بھارت کا مسئلہ کشمیر پر اپنی روایتی ہٹ دھرمی پراصرار ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور اس حوالے سے کشمیریوں کی جدوجہدکو وہ طاقت اور قوت کے استعمال سے دبا دے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشتگردی نے کشمیرکی تحریک آزادی کو مضبوط کیا ہے۔
اب ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سمیت امریکا میں مسئلہ کشمیر اورکشمیر کے اندر ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا ادراک اور احساس پایا جاتا ہے۔ اب دن بدن بھارت کی نہ صرف کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کھل کر سامنے آرہی ہے، بلکہ پاکستان میں بھی تخریبی کارروائیاں سامنے آرہی ہیں۔ پاکستان کے موقف کی روس اور چین کی جانب سے آنے والی تائید کے بعد امریکا میں ہونے والی پیشرفت سے یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اب بھارت کو عالمی دباؤ قبول کرتے ہوئے ضد اور ہٹ دھرمی کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کو اگرچہ بھارت آسانی سے قبول کرنے کو تیار نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ثالثی کی بات سے پاکستان اورکشمیریوں کوفائدہ پہنچا ہے اوریہ پاکستان کی سفارتی فتح ہے، کیونکہ حالات پاکستان اورکشمیر دونوں کے حق میں ابھرے ہیں۔
مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی وقت جنگ کی چنگاری الاؤ کی صورت اختیار کرکے دنیا کے لیے کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ نریندر مودی کی متعصبانہ سیاست اورجارحانہ حکومتی انداز نے مسئلہ کشمیرکو انسانی المیے میں تبدیل کر دیا ہے۔ خواتین اور بچوں سمیت نہتے کشمیریوں کے قتل عام اور دیگر ریاستی جرائم نے وادی کشمیرکو حقیقی معنوں میں جیل بنا دیا ہے، جس میں ایک کروڑ سے زائد باسیوں کا سانس لینا دشوارہے۔
1947ء کے بعد سے بھارتی جارحیت سے لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہے اور ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں قید اور ہزاروں گھروں اور دکانوں کوتباہ کرکے مصیبت میں گرفتار نہتے کشمیریوں کا معاشرتی و معاشی قتل عام کیاگیا۔ قابض بھارتی افواج کی جانب سے طاقت کے استعمال کا وحشیانہ، غیر دانشمندانہ اور غیر انسانی مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسند اور دہشتگرد ظاہرکرکے بیدردی سے بم دھماکوں اور بے رحمانہ فائرنگ سے شہید کیا گیا اور ان کے جسد خاکی کی کھلے عام بے حرمتی کی گئی، جس کا مقصد مظلوم کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو ختم کرنامقصود تھا۔
بھارت کی تمام تر ریاستی دہشت گردی اہل کشمیرکا جذبہ آزادی سرد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ موجودہ تحریک آزادی شہری و دیہی، خواتین و مرد، بچے و نوجوانوں سمیت شمال و جنوب تک پھیل چکی ہے۔
مزاحمتی قیادت کی دانش مندانہ حکمت عملی سے پوری ریاست میں یکجہتی کی فضا قائم ہوئی اور جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار نوجوانوں نے تحریک آزاد ی کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنا دیا ہے، جو بھارت کی سازشوں اور منفی ہتھکنڈوں کے باوجود نئے عزم کے ساتھ منزل کی جانب گامزن ہے۔ ان کی استقامت کے نتیجے میں ہی بھارت کے اہل دانش اور متعدد اہم شخصیات یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ طاقت سے کشمیر کی تحریک آزادی ختم نہیں کی جا سکتی۔ بھارتی سرکار جس قدر ظلم بڑھاتی ہے، آزادی کی تحریک مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مظلوم کشمیری چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ اپنی پاس کردہ کشمیرکی قراردادوں پرعمل درآمدکرائے اوراہل کشمیرکوان کاجائز حق دلادے۔ اہل کشمیرچاہتے ہیں کہ امریکا ہو یا کوئی دوسری عالمی قوت وہ کشمیر پر بین الاقوامی قرارداوں کے تحت کشمیریوں کو انصاف دلانے میں اپناکردار اداکرے۔ یہ حقیقت ہے کہ صرف کشمیری عوام اور پاکستان ہی نہیں، خود بھارت کے دانش مند حلقے بھی یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ علاقائی مسئلہ برصغیر کے امن اور آگے بڑھنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
ایک لحاظ سے پاک بھارت صورتحال کی قیمت پورا خطہ ادا کررہا ہے۔ اگر آج مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا تو پاکستان اور بھارت ترقی کی منازل طے کرچکے ہوتے۔ البتہ مستقبل کی بہتری کے لیے ضروری اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے لیے گیند ہمیشہ کی طرح آج بھی بھارت کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس سلسلے میں کس طرح مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔