کون سی خامی ہے جو ہم میں موجود نہیں ہے۔ معاشرے میں ہر چھوٹی بڑی خامی ہر روز ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، لیکن ایک بہت بڑی خامی جو کئی خرابیوں کی جڑ ہے، لیکن اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ کوئی اس پر توجہ نہیں دیتا۔ وہ خامی خود غرضی اور مفاد پرستی ہے۔
کسی شخص کا صرف اپنے مفاد کے لیے ہر ایک کے ساتھ معاملہ کرنا خود غرضی کہلاتا ہے۔ خود غرضی ایک سوچ اور رویے کا نام ہے، جس کا حامل انسان یہ سوچے بغیر اپنے تمام معاملات سرانجام دیتا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ کسی کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کسی کے احساسات و جذبات کچلے جاسکتے ہیں۔ اسے کسی بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اسے صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ وہ صرف اور صرف اپنا بھلا چاہتا ہے۔ وہ دوسروں کی تکلیف و پریشانی کا بالکل بھی احساس نہیں کرتا۔ وہ اپنی انا اور اپنی ذات کے آگے کسی رشتے اور کسی تعلق کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ صرف اپنی ذات سے جڑی چیزوں سے پیار کرتا ہے۔
خود غرض انسان کسی بھی حد و فکر سے بالا تر ہو کر اپنے ذاتی مفاد، بہتری، تفریح اور سکون پر توجہ دیتا ہے۔ صرف اپنے مفادات، اپنی خوشی اور اپنی بھلائی کے متعلق سوچتا ہے۔ خود غرضی مثبت احساس کے برعکس رویہ ہے، جو بے لوثی کی ضد اور منفی قدر کی نمایندگی کرتا ہے۔ بے حسی اور نفرت کی دیواریں تعمیر کرتا ہے۔ دوسروں کے حقوق کا لحاظ نہ کرنا، ہمیشہ اپنے معاملات کو دوسروں کے معاملات پر ترجیح دینا اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے سے بھی گریز نہ کرنا خود غرض انسان کی فطرت میں شامل ہوجاتا ہے۔
خود غرضی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دبے پائوں داخل ہوتی ہے اور سماجی نظام کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ملکی و ملی مفاد کو زک پہنچاتی ہے اور اس سے انسانیت تباہ ہو جاتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی، سودی لین دین، بد دیانتی، دھوکا دہی، بدعنوانی سمیت خود غرضی کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی خود غرضی و مفاد پرستی کی دلدل میں بری طرح دھنسا ہوا ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہم کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے عمل سے کسی کو کتنی ہی تکلیف ہو یا نقصان ہو ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ بس یا ٹرین میں دوران سفر ہم میں سے ہر کوئی اپنے لیے سب سے اچھی جگہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے دوسروں کو دھکے دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
کئی گھنٹوں سے قطار میں کھڑے افراد کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم میں سے ہر کوئی سب سے پہلے نمبر پر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ گاڑی پارکنگ کرتے ہوئے ہم ہر شے کو نظر انداز کرکے اس جگہ گاڑی پارک کرتے ہیں، جہاں ہمیں آسانی ہو، کسی اور کو پریشانی کا سامنا کرنے پڑے، ہمیں کوئی فکر نہیں۔ یہ اور اس طرح بہت کچھ ہماری روزمرہ زندگی میں پیش آتا رہتا ہے۔ ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ صرف اسے سب کچھ سب سے بہتر اور سب سے پہلے مل جائے۔ جب ہر انسان ہی یہ سوچے گا کہ ہر چیز میں سب سے پہلے اور سب سے بہتر صرف میرا حق ہے تو اس کے نتائج یقیناً منفی ظاہر ہوں گے۔ اس صورت میں یقیناًدوسروں کے حقوق پامال ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے خود غرض انسان خوش نہیں رہ سکتا، کیونکہ وہ ہمیشہ صرف اپنا مفاد سوچتا ہے۔ وہ مطلوبہ شے کے حصول کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے شدید الجھن، ڈپریشن اور اسٹریس کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ جسمانی و روحانی طور پر بیمار ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ تمام برائیوں کی مشترک خصوصیت خود غرضی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر تمام انسانی برائیاں خود غرضی سے ہی نکلتی ہیں۔ مفاد پرستی اور خود غرضی ہی انسان کو دھوکا دہی، چوری چکاری، ڈاکا زنی، قتل و غارت گری اور دیگر جرائم پر اکساتی و ابھارتی ہے اور دنیا کا سکون چھین کر اسے بے سکونی کا تاج پہناتی ہے۔ انسان کی اکثریت مفاد پرستی اور خود غرضی کی بھٹی میں اس قدر پک چکی ہے کہ یہ عیوب اس کی فطرت کا جزو دکھائی دیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مفاد پرستی اور خود غرضی ہی بستی ہے۔ انسان اپنی ذات میں اتنا مگن ہے کہ اسے دوسروں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہر جگہ انسان اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچاتا نظر آتا ہے۔ بے لوث محبت، ایمانداری اور بے غرض خدمت کے تمام قصے اب تو قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ آئے روز سیاست دان عوام کی خدمت کے بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سارا ڈرامہ بھی صرف مفاد حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہوتا ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔
دنیا میں اچھے اور برے انسان ضرور ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دوسروں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کو دیکھتے ہوئے خود بھی ان کے رنگ میں رنگ جائے۔ ان کی پیروی کرنے لگے اور ان کی راہ پر چل پڑے۔ اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اور بات ہے اور خود غرضی الگ چیز ہے۔ اپنے مفادات کا تحفظ اور ضرورت پر نظر رکھنا فطری امر ہے۔ اپنی ذات کا فائدہ سوچنا کوئی بری بات نہیں، بلکہ ایک فطری عمل ہے۔ مگر ہمیشہ صرف اپنا فائدہ دیکھنا، اپنے فائدے کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانا، اپنے سکون کے لیے دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کرنا، اپنی خوشی کے حصول کے لیے دوسروں کو غم سے دوچار کرنا بڑی برائی اور خرابی ہے۔ اس سے ضرور نجات حاصل کرنی چاہیے۔
خود غرضی و مفاد پرستی کی وجہ سے ساری دنیا میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔ امن و شانتی کے بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود دنیا میں چھو ٹی اور کمزور قوموں کے لاکھوں بے گناہ انسان اجتماعی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ برا ہو خود غرضی و مفاد پرستی کا جس کی بدولت انسان پستی میں جا گرا ہے۔ ایسا تو جنگل میں بھی نہیں ہوتا کہ شیر، شیر کو خوراک بناتا ہو۔ زیبرا، زیبرا کو ذبح کرتا ہو۔ چیتا چیتے کو، بھیڑیا بھیڑیے کو کھا جاتا ہو۔ کوے بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ برائی تو صرف حضرت انسان کے حصے میں آئی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر انسانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اپنے لوگوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ خود غرضی اور مفاد پرستی پر قابو پانا بہرحال ایک صحت مند اور خوبصورت معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ خود غرضی پر قابو پانے کا عمل اگرچہ سست ہے، لیکن اسے ہونا ضرور چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ خود غرضی اور مفاد پرستی کس طرح پورے معاشرے کی زندگی میں پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ ہمیں ان علاقوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جو خود غرض رویوں سے منفی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ انسان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ تقدیر کی روشنی میں چلنا چاہتا ہے یا تباہ کن خود غرضی کے اندھیرے میں چلے گا۔ خود غرضی کی نفی صرف عملی اقدامات سے ہی ہو سکتی ہے اور یہ عملی اقدامات ہمیں ہی کرنا ہوں گے۔