پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع کئی دہائیوں پرانا ہے۔ دنیا اس تنازع کی وجوہات اور نزاکت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی تلخی کی اہم وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تین باقاعدہ جنگیں لڑی جاچکی اور بے قاعدہ جنگیں ہرروز سرحد پر فائرنگ کی صورت میں ہوتی ہیں۔ پاکستان دولخت ہوا، پاکستان نے یہ قیمت اپنے کشمیری بھائیوں کو حق خودارادیت دلانے کے لیے ادا کی۔ بھارتی فوج کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھا رہی ہے۔
پون صدی سے بھارت کی طرف سے جو ظلم و ستم کیا جارہا ہے، اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو مختلف بہانوں سے گرفتارکرکے عقبوبت خانوں یا مردہ خانوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ تلاشی کی آڑ میں چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔ حریت رہنماؤں کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ کشمیریوں کو مذہبی رسومات تک ادا کرنے کی آزادی نہیں۔ کسی کی جان، عزت وآبرو محفوظ نہیں۔ جولائی 2020ء میں کشمیر میڈیا سروس، شعبہ تحقیق کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں انسان اپنے حقوق کے بغیر زندہ ہیں اور بھارت نے اظہار رائے کی آزادی سمیت کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق غضب کررکھے ہیں۔
مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج اور پولیس کی قتل و غارت گری، ماورائے عدالت قتل، غیرقانونی حراست، تشدد، پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال، املاک کو نقصان پہنچانا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا معمول بن گیا ہے۔ ان سب کے ساتھ بھارت کے فاشسٹ سیکیورٹی ادارے نہتے، معصوم اور بے قصور کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کررہے ہیں۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی میں 1989ء سے اب (2020ء) تک بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے 95 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوئے۔ ایک لاکھ60 ہزار سے زیادہ افراد کو غیرقانونی حراست میں لیا گیا، جب کہ ایک لاکھ 10 ہزار 334 املاک کو قابض بھارتی فوج نے اس عرصے میں تباہ کیا۔
2016ء کو مقبوضہ کشمیر میں "آنکھوں سے محرومی "کا سال قرار دیا گیا۔ بھارتی سیکیورٹی اداروں نے پر امن مظاہرین کے خلاف چھرے استعمال کرکے سیکڑوں نہتے کشمیریوں کو آنکھوں سے محروم کیا۔ ہزاروں افراد کو کسی مقدمے کے بغیر جیلوں میں ڈالا گیاِ، ان میں یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی سمیت متعدد حریت رہنما، ہزاروں سیاسی کارکن، صحافی، سول سوسائٹی کے ارکان بھی شامل ہیں۔
کشمیر ی حریت پسندوں کی تیسری نسل آزادی کی جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی اور جدوجہد آزادی کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔ کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کے جذبے سے سرشار اور بھارت کے خلاف شدید نفرت کے جذبات رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیری عوام کا اعتماد متزلزل نہیں ہوا اور وہ آہنی دیوار کی طرح مضبوط ہیں۔ بزدل بھارتی فوج سفاکیت و درندگی کی تاریخ رقم کرکے ان کے حوصلے پست کرنا چاہتی ہے، لیکن جرات مند اور غیورکشمیری قوم تمام تر سفاکیت کے باوجود نہ صرف پوری ہمت و استقامت کے ساتھ سینہ تانے کھڑی ہوئی ہے، بلکہ اسلحے سے لیس بھارتی فورسزکو ناکوں چنے چبوا رہی ہے۔ بھارتی فورسزکا ظلم جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے کشمیری قوم کی ہمت و استقامت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ہر قسم کا ظلم وستم آزما کر دیکھ لیا اور جذبہ حریت کو دبانے کا ہر حربہ آزمایا، مگر ہرکشمیری کا لہو ایندھن بن کر آزادی کی اس شمع کو مزید فروزاں کرتا چلا جا رہا ہے۔ بھارت کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو نہیں روک سکتا۔ بھارت کو جلد یا بدیر معلوم ہو جائے گا کہ فوجی طاقت سے آزادی کی خواہش ختم نہیں کی جاسکتی۔ بھارت ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ کشمیریوں پر ظلم کر کے شاید ان کے حوصلے پست کر دے گا اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا۔
بھارت نے نام نہاد جمہوریت اور سیکولر ازم کی آڑ میں مقبوضہ علاقے میں ظلم وستم کا جو بازارگرم کر رکھا ہے، دنیا میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بھارت نے جبروستم کے تمام ریکارڈ مات کردیے ہیں، اس کے باوجود عالمی برادری بھارت کی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا ظلم دنیا کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے سوالیہ نشان اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ مغربی ممالک میں ایک شخص کی جان بھی کسی دہشت گردی کے واقعے میں چلی جائے تو پوری دنیا میں شور مچ جاتا ہے، لیکن کشمیریوں کی جانوں کی شاید کوئی قیمت نہیں ہے۔ عالمی برادری گنگ ہے۔ یہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق حل کرائیں تاکہ کشمیر میں جاری ظلم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوسکے۔
مسئلہ کشمیر بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی و ظلم و ناانصافی کے باعث تاحال حل نہیں ہوسکا۔ کشمیرکی آزادی صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے وقار اور خودمختاری کا بھی مسئلہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یوم یکجہتی کشمیر ہر سال ماضی کی ان تمام ظلم وجبر کی داستانوں کی یاد تازہ کرتا ہے جو جنت نظیر کشمیر کے مظلوم عوام نے برداشت کیے ہیں۔ اس دن کو منانے کا آغاز5فروری 1990ء سے ہوا۔ تب سے 5فروری کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔
پاکستان کی مختلف تنظیمیں اور خود حکومت بھی کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے اظہار یک جہتی کے لیے جلسے جلوس، ریلیاں اور دوسرے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔ اخبارات میں مضامین شایع ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ جلسے جلوس سیمینارزکا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بھارتی بربریت، سفاکانہ مظالم اورکشمیریوں کے بہیمانہ قتل وغارت گری کے خلاف قراردادیں منظورکی جاتی ہیں۔ برسوں سے یہ ہورہا ہے، مگر اب تو لگتا ہے یہ سب کچھ محض رسم کے طور پرکیا جاتا ہے۔
ہمارے حکمران آزادی کشمیر کے لیے پر عزم نظر نہیں آتے، محض بیان بازی کی جاتی ہے۔ کشمیری امید بھری نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کشمیری ہمارے بھائی ہیں، بھائی کی حفاظت کرنا، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اہم فرائض میں سے ہے۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے اور نہ اسے حوادث کے حوالے کرتا ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ ہم سب کو مل کرکشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں عوام اہل کشمیر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کریں، پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ کشمیری عوام پاکستان سے جس طرح کا تعاون چاہتے ہیں، حکومت پاکستان کو اس پر پورا اترنا چاہیے۔ پاکستان کو کشمیر پر ٹھوس پالیسی اپنانے کے لیے توجہ مرکوز کرنا ہوگی، تاکہ لاکھوں کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔