یورپ میں برسوں سے مسلمانوں کے خلاف پنپنے والی نفرت انتہائی شرمناک اور پوری دنیا کے لیے نقصان دہ ہے، اسے ختم ہوجانا چاہیے، لیکن افسوس برسوں سے مسلم ممالک کو تہہ وتیغ کرنے اور مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے باوجود بھی یہ نفرت کم نہیں ہورہی۔
20 سال قبل امریکا کو افغان جنگ میں دھکیل کر لاکھوں افغانوں کو قتل کروانیوالے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر نے ایک بار پھر اسلام مخالف بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام پسندی سے مغرب کو اب بھی خطرہ ہے۔ بنیاد پرست اسلامی گروہوں کی جانب سے مغرب پر بڑے پیمانے پر حملوں کا خطرہ ہے، تاہم اس بار حیتیاتی دہشت گردی کا خطرہ ہے۔
ٹونی بلئیر کا کہنا تھا کہ دہشتگرد حملوں میں کمی کے باوجود اسلامی شدت پسندی چاہے اس کا تعلق نظریات سے ہو یا تشدد سے، درجہ اول کا خطرہ ہے جس کا کبھی بھی ہم کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس کا مرکز ہم سے چاہے کتنی ہی دور ہو، نائن الیون حملوں کی طرح ہمیں ان حملوں کا ایک بار پھر سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
حیرت اور افسوس ہے کہ مغرب کے صف اول کے لیڈر بھی انتہاپسندی کا شکار ہوکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور ایک ایسے واقعہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو دہشتگرد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جس کے بارے میں آج تک یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ اس واقعہ میں کوئی مسلمان گروہ ملوث تھا بھی کہ نہیں، بلکہ مغرب کی کئی معتبر شخصیات تو نائن الیون واقعہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے خود امریکا کا ایک منصوبہ قرار دیتی ہیں اور اگر اس واقعہ میں کوئی مسلمان گروہ ملوث ہوا بھی تو کیا۔
اس سے بحیثیت مذہب اسلام کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دینے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ جس طرح امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے کئی سال تک کئی مسلم ممالک میں خون کی ندیاں بہائیں، لیکن اس کے باوجود اس تمام خونریزی کا ذمے دار عیسائی مذہب کو قرار دینے کے بجائے ان ممالک کو دیا جائے گا، جنھوں نے اس خونریزی میں حصہ لیا۔ اسی طرح کسی گروہ کے عمل کا ذمے دار مذہب اسلام کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغرب میں اسلام سے نفرت کا معاملہ صرف ٹونی بلئیر تک ہی محدود نہیں، بلکہ آئے روز کوئی مغربی لیڈر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کررہا ہوتا ہے۔
کبھی یورپ میں مساجد اور قرآن مجید پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے توکبھی مسلمانوں کی یورپ آمد روکنے اور انھیں یورپ سے نکالنے کی بات کی جاتی ہے۔ نعوذ باللہ کبھی نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی توہین کی جاتی ہے تو کبھی اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ یورپ اسلام فوبیا کا شکار ہے۔
تمام مہذب دنیا کو اسلامو فوبیا کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنی چاہیے، اسلام فوبیا صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ اسلامو فوبیا مسلمانوں سے نفرت کرنے اور تعصب برتنے کا نام ہے۔
اسلاموفوبیا (اسلام کا خوف)کی اصطلاح دراصل لفظ" اسلام " اور یونانی لفظ " فوبیا " (یعنی ڈر جانا) کا مجموعہ ہے۔ اسلام دشمن فکر مغرب میں صرف عام لوگوں میں ہی نہیں، بلکہ مغربی ممالک کے ریاستی ادارے بھی اس ذہنیت کا برملا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس تعصب کی وجہ سے ان ممالک میں مقیم مسلمان مسلسل خوف میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ مغربی دنیا میں مقیم کروڑوں مسلمانوں میں سے جو اسلامی روایات و اقدار پر عمل کرتے ہیں، انھیں آسٹریلیا سے لے کر امریکا اور ارجنٹائن تک کئی مسائل کا سامنا ہے۔
روزہ مرہ کاموں کے دوران ان سے حقارت آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ اسلامی لباس میں ملبوس ہوں تو ان پر حملہ کردیا جاتا ہے۔ اسلام فوبیا سے مغربی ممالک میں ان قدامت پسند اور انتہا پسند سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مقبولیت بڑھتی ہے، جو اپنے معاشروں میں اسلام اور مسلمانوں کا پھیلاؤ محدود یا ختم کرنا چاہتی ہیں۔ مغرب میں اسلام کے خوف اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم ایک طرح کی پوری صنعت کی شکل اختیارکر چکی ہے۔ منفی خیالات کو ذرایع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کا ایک جھوٹا اور خوفناک چہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔
مختلف ذرایع سے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں تعصب پر مبنی خیالات پختہ کیے جا رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی یا لاعلمی اس خوف کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اسلام کا خوف پھیلانے میں ذرایع ابلاغ کے علاوہ ہالی وڈ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ معلومات کی تشہیر کے آلات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں تعصب کی بنیاد پر قائم ویب سائٹس، لٹریچر، سوشل میڈیا، ویڈیو گیمز، مسجدوں اور شریعہ کے خلاف مہم اور مسلمانوں کے خلاف سیاست اور پالیسیاں شامل ہوگئے ہیں۔ مغربی دنیا میں عوام و خواص کی اکثریت مذہب اسلام سے واقف نہیں۔ وہ اسے جارح، اپنے نظریات انسان پر تھوپنے والا اور دقیانوسی قوانین کا مرکب مذہب سمجھتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں کا منبع مختلف مغربی مصنفین کی لکھی کتب ہیں۔
یہ کتب اس باقاعدہ منصوبے کے تحت لکھی گئیں کہ اسلام پر زیادہ سے زیادہ تہمتیں لگائی جائیں۔ دنیائے مغرب کے ممتاز مستشرق ایڈورڈ سعید نے 1978 میں "اورینٹل ازم" نامی کتاب میں لکھا کہ 1800 سے 1978 تک دنیائے مغرب میں مغربی مصنفین نے اسلام اور حضور اکرم ﷺ سے متعلق "ساٹھ ہزار" کتب تحریر کیں۔
1300 تا 1800 میں لکھی جانیوالی کتابوں کو بھی شمار کیا جائے تو ان کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔" ان ایک لاکھ کتب میں چند کو چھوڑ کر سبھی میں اسلام کے خلاف اشتعال انگیز مواد، بے سروپا واقعات اور غلط فہمیاں پیدا کرنیوالی باتیں موجود ہیں۔ ان کتب کی وجہ سے مغربی معاشروں میں مذہب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد نے جنم لیا اور کئی مغالطے سامنے آئے۔ اگر اسلام اور اسلامی تعلیمات سے متعلق درست معلومات اہل مغرب تک پہنچیں تو یقینا وہ اسلام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہیں۔
نائن الیون کے بعد ایسا ہی ہوا۔ مسلمان موضوع بحث بنے۔ مغرب میں بہت سے لوگوں نے اسلام پر ریسرچ کی۔ تاریخ میں پہلی بار بھاری تعداد میں قرآن کریم کے نسخے امریکی و یورپی مارکیٹ میں کثرت سے فروخت ہوئے۔ یونیورسٹیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پی ایچ ڈی کرنے والوں کا تانتا بند گیا۔
یورپ وامریکا کے سیکڑوں اداروں نے اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم کیے۔ اہل مغرب کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کے بارے میں تحقیق کی اور درست معلومات حاصل کیں، جس کی وجہ سے مغرب میں اسلام سب سے زیادہ مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔ مغرب کو قدرے سنجیدگی اور غیر جانبداری کھلے ذہن کے ساتھ اسلام، اسلامی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔