چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں لاہورکی نجی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ایک لڑکے کو شادی کے لیے پرپوزکیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گلدستہ پیش کیا۔
انتظامیہ نے ضابطے کے خلاف ورزی کرنے پر دونوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔ اس واقعہ کے بعد دیگر طلباء کی جانب سے لڑکیوں کو پرپوزکرنے کا سلسلہ تیزی سے چل پڑا ہے۔ کوئی لڑکا پھولوں کا دل بنا کر کسی لڑکی کو پیش کررہا ہے تو کوئی کیفے ٹیریا میں دوستوں کے ہمراہ لڑکی کو پھول پیش کرکے جیون ساتھی بننے کی پیش کش کر رہا ہے۔
لڑکے اس عمل کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کررہے ہیں۔ اس حوالے سے کہیں مثبت تبصرے سامنے آرہے ہیں تو کہیں تنقید کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ اس واقعہ کی حمایت میں یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ملک میں ہر جانب نفرت عام ہے۔ نفرت کی کھلے عام اجازت ہے، محبت کی بھی کھلے عام اجازت ہونی چاہیے۔ دونوں نے کھلے عام پرپوز کر کے کوئی جرم نہیں کیا۔ مرضی سے شادی کرنا ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے، اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے مرضی کی شادی ان حقوق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی کے لیے جیون ساتھی کا انتخاب کرنا کوئی جرم نہیں ہے، پسند کی شادی کرنا ہر لڑکی اور لڑکے کا حق ہے، لیکن کچھ معاشرتی اخلاقیات بھی ہوتی ہیں، ہر معاشرے کی کچھ اقدار ہوتی ہیں۔ ان پر عمل کرنا ہر معاشرے میں ضروری ہوتا ہے۔ معاشرتی اخلاقیات و اقدار کی حدود میں رہ کر جیون ساتھی کا انتخاب کرنا چاہیے۔
ایسا طریقہ اپنانا جو معاشرتی اقدارکو نقصان پہنچائے، کسی بھی معاشرے میں اس کی اجازت نہیں ہوتی۔ تعلیمی اداروں میں آئے روز لڑکیوں کے ساتھ عشق و محبت اور دوستی کے نام پر جنسی تشدد، بلیک میلنگ اور قتل تک کے واقعات رونما ہوتے ہیں، ایسے حالات میں شادی کے لیے پرپوزکرنا اور نکاح کرلینا ایک اچھا عمل ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں کسی بھی مرد اور عورت کا کھلے عام محبت کا اظہارکرنا بھی تو معیوب بات ہے، غیر شادی شدہ کے اس طرح کرنے کی تو شرعی، قانونی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر اجازت ہی نہیں ہے، اسے بے حیائی اور بے شرمی کہا جاتا ہے۔ محبت کا سرعام اظہار دنیا کے بیشتر معاشروں میں ناپسندیدہ ہے۔
اس اظہار میں ایک حد سے آگے جانے کی آزادی تو مغربی ممالک میں بھی نہیں ہے۔ جہاں یہ آزادی قانون نے دی ہے، وہاں بھی عاشقی میں مصروف جوڑوں کے پاس سے گزرتے ماں باپ اپنے بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ ہمارا ملک تو اسلامی ملک ہے، ہمارا مذہب تو ہر ایسے کام سے روکتا ہے، جو معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دے اور دوسروں کے جذبات کو ابھارے، ہمارے معاشرے میں غیرشادی شدہ لڑکا لڑکی کو کھلے عام محبت کے اظہار کی اجازت قطعاً نہیں دی جاسکتی، کیونکہ یہ بے حیائی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔
شادی کی پیشکش کرنا بڑا مسئلہ نہیں، مگر اس کے لیے طریقہ اور جگہ غلط منتخب کیے گئے ہیں۔ تعلیمی ادارے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، سرعام عشق و محبت کرنے کے لیے نہیں بنائے جاتے۔ ایسے واقعات سے کئی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے لڑکیوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کی شرح کافی کم ہے۔
ان میں سے بھی بہت کم لڑکیاں کالج یا یونیورسٹی تک پہنچ پاتی ہیں۔ بیشتر لڑکیاں آگے پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن والدین انھیں آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے، ان کی نظر میں مخلوط کالج اور یونیورسٹیاں ان کی بچیوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں، کیونکہ وقتاً فوقتاً یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کے ساتھ غیر اخلاقی واقعات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں، یہ واقعات والدین پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
والدین کتنے ہی آزاد خیال ہوں، لیکن کوئی یہ نہیں چاہتا کہ ان کی اولاد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے عشق و محبت میں اپنا وقت ضایع کرے۔ یونیورسٹی میں لڑکی اور لڑکے کی طرف سے جو واقعہ پیش آیا ہے، ایسے واقعات ملک بھر میں خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایسے واقعات والدین کو اپنی بچیاں یونیورسٹی بھیجنے سے روکتے ہیں۔ ہمارا مذہب اسلام تعلیم نسواں کا حامی ہے، لیکن تعلیم کے ان طریقوں سے منع کرتا ہے جو صنف نازک کو اس کی نسوانیت سے محروم کرکے حیا باختہ بنا دے۔ اسلام مرد و زن کے بے حجابانہ اختلاط کو انسانی معاشرہ کے لیے تباہ کن قرار دیتا ہے، کیونکہ اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔
اسلام عورت کو اجنبی مردوں کے ساتھ عدم اختلاط کے ساتھ تعلیم کی اجازت دیتا ہے، لیکن وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صنف نازک کی نسوانیت کے تقدس کی حفاظت کو اس کی تعلیم سے کئی گنا زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
اسلام عورتوں کوحصول تعلیم کے ان طریقوں سے منع کرتا ہے جن کے ذریعے اس کی نسوانیت کا تقدس پامال ہوتا ہو۔ اس لیے اسلام مخلوط نظام تعلیم کا قائل نہیں ہے، اگرچہ بیشتر لڑکے اور لڑکیاں مخلوط نظام میں بھی مذہبی اور معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن کئی ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں، جن کی وجہ سے طلباء و طالبات کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخلوط تعلیم کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کرنا ہو تو اس حوالے سے آئے روز اخبارات میں مختلف خبریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
دین اسلام اور اس کی تعلیمات میں اجنبی مرد و عورت یا لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان دوستی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور مخلوط نظام تعلیم کے اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات میں صنف مخالف میں دلچسپی لینا، ان سے مذاق و دل لگی کرنا، ایک دوسرے کی توجہ حاصل کرنے یا اپنی طرف راغب کرانے کے مواقع تلاش کرتے رہنا اور دوستیاں پیدا کرنا عام ہوتا ہے۔ ان کے آپس کے تعلقات صرف دید تک محدود نہیں رہتے ہیں، بلکہ وہ دھیرے دھیرے وہاں تک جا پہنچتے ہیں جس کے بعد پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مخلوط نظام تعلیم تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے بجائے پستی کا سبب بن رہا ہے۔
فرانس میں 15 سال کی ریسرچ سروے رپورٹس کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مخلوط تعلیمی اداروں کے ماحول اور مرد وخواتین کے لیے آزادانہ اختلاط کے زیادہ مواقع سے جنسی تشدد کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ مخلوط تعلیمی اداروں کے ماحول نے تعلیمی گراف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام نے مسئلہ سمجھنے اور سلجھانے میں زیادہ مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
مغرب میں سنگل سیکس اسکول خوب فروغ پارہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک جویکسانیت اور اختلاط کو اپنی تہذیب کا حصہ مانتے ہیں، وہ سنگل سیکس اسکول کے حمایتی نظر آرہے ہیں۔ مغرب مادر پدر آزادی کی وجہ سے اپنے خاندانی نظام کی تباہی کا خمیازہ بھگت کر اسلام کے اصولوں کو اپنانے کی کوشش کررہا ہے، ہمیں بھی مغرب کی پیروی چھوڑ کر اپنی قیمتی متاع مذہب اسلام کے اصولوں کو اپنا لینا چاہیے، اسی میں پورے معاشرے کی کامیابی ہے۔