پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات برسوں سے رونما ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی کی جاتی رہی، تاہم اس کے باوجود پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال اور قتل کا سلسلہ رک نہیں سکا۔
اس حوالے سے دن بدن زیادہ موثر اور سخت قانون سازی کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔ تاہم گزشتہ دنوں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے قرار داد پیش کی جس میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
ایوان نے اس قرارداد کو کثرت رائے سے منظورکر لیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے قرارداد کی حمایت کی۔ تحریک انصاف کے دو وزراء ڈاکٹر شیریں مزاری اور فواد چوہدری نے سرِ عام پھانسی دینے کی تجویز سے اختلاف کیا۔ عوامی سطح پر اس قرارداد کی حمایت کی گئی اور حکومت کے اس اقدام کو سراہا گیا ہے۔
زینب کیس کے بعد سے عوام کی اکثریت بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ شیطان صفت مجرموں کے لیے سرِعام پھانسی دیے جانے کی قرارداد کی کثرت رائے سے منظوری اس سفاکانہ فعل کے خلاف موثر قانون سازی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کا واضح اظہار ہے۔
بچوں کے جنسی استحصال اور قتل کے خوفناک واقعات کو شیطانیت و درندگی کے کھلے مظاہرکے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بچوں سے زیادتی قبیح، کریہہ، سنگین اور ظالمانہ جرم ہے جس سے معاشرے میں عدم تحفظ اور سفاکانہ رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے بچے پوری زندگی خوف میں گزارتے ہیں۔ وہ خود کو ہمیشہ غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اور ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔
اس قسم کے سفاکانہ واقعات کا تواتر سے پیش آنا بہت افسوسناک اور بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہوس کے پجاری انسان نما جانور اتنے آزاد ہو گئے کہ ان کی حیوانیت سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ہیں اور اس مکروہ فعل کے واقعات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ ہر سال ہزاروں بچے اور بچیاں حیوانٍ نما انسانوں کی ہوسناکی کا شکار ہوتے ہیں، سیکڑوں اغوا ہوتے ہیں۔ بہت سوں کو تو شیطان صفت درندے قتل ہی کر ڈالتے ہیں۔
بچوں کے خلاف جرائم پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق سال 2018 اور 2019 میں پولیس کو اس قسم کے چار ہزار سے زیادہ واقعات کی اطلاع دی گئی اور ہر سال بہت سے واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ ہر سال پیش آنے والے ہزاروں واقعات میں ملوث مجرموں کو پکڑا ہی نہیں جاتا اور جو چند مجرم پکڑے جاتے بھی ہیں، انھیں بھی سزا نہیں دی جاتی، بلکہ انھیں بچانے کوئی نہ کوئی با اثر شخصیت سامنے آجاتی ہے اور ہر سال کئی ملزمان مظلوم بچوں کے لواحقین سے راضی نامہ کر کے خود کو قانونی کارروائی سے بچا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کسی صورت معافی نہیں ملنی چاہیے۔
کسی ملک میں اگر کسی خاص طبقے کو تحفظ نہ ملے تو متاثرہ طبقہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے مختلف طریقے اپناتا ہے، مگر بچے کمزور ہوتے ہیں، لڑ نہیں سکتے، اپنے حق میں کوئی تحریک نہیں چلا سکتے۔ کئی غلیظ اور سفاک سوچ کے لوگ ان کی عزت سے کھیلتے ہیں، مگر وہ اپنا تحفظ نہیں کر سکتے، ان کا تحفظ کرنا بڑوں کی ذمے داری ہے۔
مختلف حکومتوں میں بچوں کے خلاف جرائم پر پولیس، سماجی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے فکر مندی کا اظہار کیا جاتا رہا، مگر یہ فکر مندی جرائم کی شرح کم نہ کر سکی۔ عبرتناک سزائیں بلاشبہ جرائم میں کمی کا سبب بنتی ہیں۔ سزا یقینی طور پر ہو گی تو جرم کم ہو گا۔ اس بات سے انکار نہیں کہ سخت سزاؤں کا خوف لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے بعد قتل پر دہشتگردی کی دفعات کے تحت بھی مجرم کو پھانسی کا سزاوار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے پے در پے کیسز سے معاشرے کی ہولناک تصویر سامنے آتی ہے۔ ہم ملک کو ناسوروں کے وجود سے پاک کر کے ہی مہذب معاشرے کا روشن چہرہ پیش کر سکتے ہیں۔
اگر حکومت واقعتا ایسے جرائم کے مرتکبین کو پھانسی کے تختے پر سر عام جھولتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے تو اس سلسلے میں قانون سازی اور ملزم کی گرفتاری سے لے کر سزائے موت تک تمام مراحل کو تیزی سے نمٹانا ہو گا۔ بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے شیطانی فعل پر سرِعام پھانسی کا قانون بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ایسے پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کا عمل میں لایا جانا ضروری ہے جس میں انسانی فطرت کے جائز تقاضوں کی جائز طریقوں سے تکمیل مشکل نہ ہو اور سفلی جذبات کو بھڑکا کر لوگوں کو ناجائز راستوں کی طرف راغب کرنے کے تمام طریقوں کی موثر بندش کا مکمل اہتمام بھی کیا گیا ہو۔ حکومت کو وہ تمام اقدامات کرنے چاہیے، جن سے بچوں کی حفاظت یقینی ہو۔
اس نوعیت کے سنگین جرائم سے محفوظ رہنے کے لیے ایسے مجرموں پر بے رحم قانون کا نفاذ کرتے ہوئے انھیں سخت سے سخت عبرتناک سزا دینا تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ حکومت کو ایسے تمام ذرائع پر بھی پابندی لگا دینا ہو گی، جو اس قسم کے گھناؤنے جرائم پر ابھارتے ہیں۔
ایسے واقعات جنسی گھٹن اور فرسٹریشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جنسی گھٹن اور فرسٹریشن کو فروغ دینے میں فحش ویب سائٹس کا اہم کردار ہے۔ ماہرٍ نفسیات و سماجیات کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کی وجہ میڈیا اور انٹر نیٹ کے ذریعے دستیاب ایسا (فحش) مواد ہے جو نوجوانوں کو مسلسل اشتعال کی حالت میں رکھتا ہے اور پھر وہ اپنی تسکین اور تناؤکو کم کرنے کے لیے آسان ہدف کی تلاش کرتے ہیں اور بچے سب سے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ انسانوں کو جنسی زیادتی پر برانگیختہ کرنے والا فحش مواد اس قدر عام ہے کہ انٹرنیٹ پر ہونے والی سرچ میں سے 25 فیصد فحش مواد ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت انٹر نیٹ پر فحش سائٹس کی تعداد پچاس لاکھ سے زاید ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ذاتی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنکشن کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، کم از کم موبائل فون تو تقریباً ہر کسی کے پاس ہے جس میں کسی بھی قسم کی ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھی جا سکتی ہیں۔ فحش سائٹس معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کا ایک بڑا محرک ہیں۔ دنیا میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے ناسور کا کافی حد تک علاج فحش سائٹس پر پابندی لگا کر کیا جا سکتا ہے۔
چائلڈ لیبر بھی جنسی تشدد کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ چائلڈ لیبر تیسری دنیا کے بچوں کے لیے ایک بھیانک خواب ہے۔ معاشی حالات سے مجبور بچہ اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کر سکتا اور کسی کو کچھ بتاتا بھی نہیں۔