کراچی میں پولیس نے آنسوگیس کی شیلنگ، واٹرکینن کا استعمال اور لاٹھی چارج کرکے کئی خواتین و مرداساتذہ زخمی کر دیے۔ حکومت سندھ نے 957 اساتذہ کو مستقل کرنے کے بجائے بیروزگارکرنے کا فیصلہ کیا تو اساتذہ اس حکومتی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
پولیس نے قوم کے معماروں کو حوالات میں بند کر دیا۔ شرم کا مقام ہے، جن کی بدولت قومیں ترقی کرتی ہیں ، اپنے جائز مطالبہ کے لیے احتجاج کی پاداش میں پولیس نے ان کو ہی لہو لہان کر دیا اور ان کے ساتھ مجرموں کی طرح سلوک کرنے لگی۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ پہلے بھی اساتذہ کو اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنے پر متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
وہ قوم آخرکس طرح ترقی کر سکتی ہے، جو اپنے ہی محسنوں اور معماروں سے مجرموں کی طرح سلوک کرے۔ اساتذہ قوم کے محسن اور ملک وقوم کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔ کسی بھی اعلیٰ عہدے اور بلند مرتبہ و مقام تک پہنچنے والے ہر شخص اور ہر قوم کی ترقی ان کے اساتذہ کے مرہون منت ہوتی ہے، لیکن افسوس ہمارے ملک بھر میں حکومتی سطح پر اساتذہ کو ان کے جائز مقام سے محروم رکھا جاتا ہے۔ استادکو قوم کا معمارکہا اور روحانی والدین کا درجہ دیا جاتا ہے۔
استاد ہی معاشرے کو زندگی کا سلیقہ اور مقصد سکھاتا، سوچ اور فکرکی راہ متعین کرتا اور زندگی کی گتھیاں سلجھانے کے گر بتاتا ہے۔ عالمی یوم اساتذہ سلام ٹیچر ڈے کے عنوان سے ہر سال 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد اساتذہ کی اہمیت کو اْجاگرکرنا اور یہ پیغام عام کرنا ہے کہ استادکے بغیرکوئی معاشرہ اور ملک ترقی یافتہ نہیں بن سکتا، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اساتذہ کو وہ مقام حاصل نہیں جو ان کا حق ہے۔ اساتذہ کے مسائل کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتے جارہے ہیں، مگر پھر بھی وہ قوم کے مستقبل کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے اپنا آپ وقف کیے ہوئے ہیں۔
پنجاب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس اپنی وزارت میں بہت عمدہ کام کر رہے ہیں۔ وہ تعلیمی مسائل کے حل کے لیے کئی مثبت تبدیلیاں لاچکے ہیں، جس سے اسکولوں اور اساتذہ کو متعدد مسائل سے نجات ملی ہے۔ امید ہے آگے بھی شعبہ تعلیم میں مزید بہتر تبدیلیاں لاتے رہیں گے اور پنجاب کے اسکولوں اور اساتذہ کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے کمر بستہ رہیں گے۔ پنجاب کے اسکولوں میں اساتذہ کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے حوالے سے کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کی بنیادی وجہ اساتذہ نہیں، بلکہ ہمارا نظام تعلیم ہے۔ پالیسی میکرز نہ تو اسکولوں اور اساتذہ کے مسائل سے واقف ہیں اور نہ ہی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
پنجاب حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں کو بلدیاتی اداروں کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس فیصلے پر عمل درآمد سے سرکاری اسکولوں میں نظام تعلیم تباہ ہوجائے گا۔ سرکاری اسکولوں میں کونسلروں اور چیئرمینوں کی مکمل اجارہ داری قائم ہوجائے گی اور اسکول تعلیمی ادارے نہیں رہیں گے، بلکہ سیاسی گڑھ بن جائیں گے۔ اس فیصلے کے بھیانک نتائج کا سامنا صرف تعلیمی اداروں کو ہی نہیں کرنا پڑے گا، بلکہ بحیثیت مجموعی پوری قوم کے بچوں کو تعلیمی نقائص سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لہٰذا اگر پنجاب حکومت تعلیم کے فروغ میں مخلص ہے تو اسے اپنا یہ فیصلہ فورا واپس لینا چاہیے۔
سرکاری اسکولوں میں پرائمری اور مڈل کی سطح تک ہر بچے کو پاس کرنا ضروری ہے، چاہے بچہ کتنا ہی نکما، تعلیم کے معاملے میں غیر سنجیدہ اور لاپرواہ کیوں نہ ہو۔ یہ حکومتی پالیسی طلباء وطالبات کے مستقبل اور تعلیم کے لیے سم قاتل ہے اور اساتذہ سے زبردستی پاس کیے گئے ان نالائق بچوں کے نتائج بھی دیگر لائق بچوں کے برابر مانگے جاتے ہیں، جو سراسر اساتذہ سے ناانصافی ہے۔ ہر بچے میں ایک سی صلاحیت نہیں ہوتی، امتحان میں مطلوبہ نمبر حاصل نہ کرنے والے کم صلاحیت بچوں کو فیل کردینا چاہیے، تاکہ اگلے سال مزید محنت کر کے کامیابی حاصل کرسکیں، انھیں بلاوجہ پاس کرتے چلے جانا ان کا مستقبل تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
حکومت کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں بچوں کی تعداد بڑھانے اور حاضری پوری کرنے کی ذمے داری اساتذہ پر عائد کی جاتی ہے، حالانکہ اس حوالے سے تمام تر ذمے داری والدین پر عائد کی جانی چاہیے، اگر والدین بچے کو بلاضرورت غیرحاضری کرواتے یا اسکول میں داخل نہیں کرواتے اور یا بچوں کی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے تو اس کی وجہ سے والدین کو جرمانہ کرنا چاہیے، نہ کہ اساتذہ زیر عتاب آئیں۔ اگر والدین غربت کی وجہ سے بچے کو پڑھانے سے قاصر ہیں تو ان بچوں کے لیے حکومت کو اسپیشل الاؤنس مقررکرنا چاہیے۔
سرکاری اسکولوں میں استاد کسی طالب علم کو کسی بھی وجہ سے خارج نہیں کر سکتا۔ بعض طلباء اسکول نہیں آتے، پڑھائی نہیں کرتے، اسکول کا کام نہیں کرتے، اسکول کے دیگر کوڈآف کنڈکٹ کا خیال نہیں کرتے، اساتذہ سے بدتمیزی کرتے اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، لیکن حکومتی پالیسیوں کے مطابق استاد ان کی سرزنش نہیں کر سکتا۔ بچے اسکول نہ آئیں توبھی استاد ذمے دار ہے، اگر وہ ان کو اسکول لانے کے لیے سرزنش کرے تو بھی استاد کو ہی معتوب ٹھہرایا جاتا ہے۔ کلاس رومز میں طلباء کی تعداد زیادہ ہو تو ہر طالب علم پر توجہ دینا ناممکن ہے، اس لیے ہائی اسکول ہو یا پرائمری و مڈل، کسی بھی کلاس میں 30 سے زیادہ طالب علم نہیں ہونے چاہیے۔
اساتذہ کی تکریم میں اضافے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے چاہیے۔ تعلیم حاصل کرنے کا پہلا زینہ ہی استاد کو عزت دینا ہے۔ محکمہ تعلیم کے کسی افسر کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ اساتذہ کی عزت نفس مجروح کرے، مگر افسوس محکمہ تعلیم میں آفیسرز اپنی کارکردگی بہتر دکھانے اور انعام حاصل کرنے کے لیے اساتذہ پر بلاوجہ سختی کرتے ہیں اور اسا تذہ کو مختلف طریقوں سے ایسے تنگ کیا جاتا ہے، جیسے استاد قوم کا محسن نہیں، بلکہ مجرم ہے اور بچوں کو پڑھا کر وہ قوم کی تعمیر نہیں کر رہا، بلکہ تخریب کررہا ہے۔
تعلیمی مسائل اور متعلقہ امور پر بات کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا جانا چاہیے، جہاں انھیں تعلیمی پالیسیوں پر آزادانہ تنقید کا حق حاصل ہو۔ اساتذہ کو اس سرکاری مشینری میں شامل کیا جانا چاہیے جو ان کے اور شعبہ تعلیم کے مستقبل کے فیصلے کرتی ہے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حیرت کی بات ہے جب تعلیم میں رینکنگ ڈاؤن ہوتی ہے، تب تو آفیسرز کی جانب سے اساتذہ پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں، لیکن جب ضلع بھر میں بہترین کارکردگی پر انعام دیا جاتا ہے، تو یہ انعام آفیسرز لے لیتے ہیں، حالانکہ اس انعام کے حقدار اساتذہ ہیں۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مرکزی، صوبائی اور ضلع سطح پر ان کی مکمل حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور سالانہ بنیادوں پر حسن کارکردگی ایوارڈز سے نوازا جانا چاہیے۔
اساتذہ کی حاضری، سروس بک، پہلی تنخواہ اور پنشن کا نظام کمپیوٹرائزکیا جانا چاہیے، تاکہ کلرکوں کے بدتمیز رویے، سست روی اور رشوت خوری سے نجات حاصل کی جا سکے۔ بیشتر اساتذہ کے لیے اپنی پہلی تنخواہ اور بقایا جات کلرکوں کو رشوت دیے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے۔
ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل ڈگری ہولڈر اساتذہ کو گریڈ 16 تا 17 دیا جانا چاہیے اور تنخواہ بھی دیگر محکموں کے 16 تا 17 گریڈ کے ملازمین کے برابر ہونی چاہیے۔ اساتذہ کی رخصت پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، جسے فورا ختم ہونا چاہیے۔ کسی استاد کوکوئی بھی ضروری کام پیش آجائے یا کوئی اور مسئلہ درپیش ہو تو اسے رخصت ملنا بہت مشکل ہے، حالانکہ قوانین میں اساتذہ کے تمام حقوق لکھے ہوئے ہیں، لیکن لکھے ہوئے پر عمل نہیں کیا جاتا۔ استاد کے ساتھ محکمے اور آفیسرز کے رویے بہت افسوس ناک ہیں، جنھیں بدلنا چاہیے۔