Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Aftab Ahmad Khanzada/
  3. Aap Ke Andar Aik Jin So Raha Hai

Aap Ke Andar Aik Jin So Raha Hai

جینز ڈومی نیک بوبی فرانسیسی صحافی تھا یہ 23 اپریل 1952میں پیدا ہوا، تعلیم حاصل کی صحافی بنا اور محنت شروع کر دی، یہ صحافت کے مختلف مندرجات طے کرتا ہوا پیرس کے مشہور فیشن جریدے ایلی کا چیف ایڈیٹر بن گیا۔

یہ اس کے کیریئر کی معراج تھی وہ سمجھتا تھا کہ وہ زندگی میں جو کچھ بننا چاہتا تھا، بن گیا اور اب کامیابی اور اس کی محنت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے وہ اپنی بیوی سیلنی اور دو بچوں کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہا تھا، وہ ہفتے میں پانچ دن کام کرتا اور دو دن بچوں اور بیوی کے ساتھ چھٹیاں گزارتا تھا۔

یہ لوگ جمعہ اور ہفتہ کو کنٹری سائیڈ پر نکل جاتے، کیمپنگ کرتے کھیتوں اور جنگلوں میں وائلن بجاتے تھے اور جھیلوں اور نہروں کے کنارے لیٹ کر آدھی رات کے چاند سے باتیں کرتے تھے۔ بوبی کو پانی میں گھلتے ہوئے چاند بہت اچھے لگتے تھے، وہ تھیٹرز اور فلموں کا بھی شوقین تھا اسے فیشن میں آنے والی تبدیلیوں میں بھی دلچسپی تھی۔

پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا 8 دسمبر 1995 کو اس نے کر سی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے جسم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ کومے میں چلا گیا اس کا جسم اس کا دماغ اس کی روح سب گہری نیند سو گئے، بوبی کو اسپتال لے جایا گیا اس کے پھیپھڑے آکسیجن جمع کررہے تھے دل خون پمپ کررہا تھا اور یہ خون جسم میں گردش بھی کررہا تھا لیکن اس کی حسیات جواب دے چکی تھی، وہ نیند کے گہرے کنویں میں ڈوب چکا تھا۔

بوبی وینٹی لیٹر پر تھا اور اسے ٹیوب کے ذریعے خوراک دی جارہی تھی، ڈاکٹر اسے جگانے کی کوشش کررہے تھے 20 دن بعد اس کی آنکھ کھل گئی۔ یہ جاگ گیا لیکن یہ " لاک ان سینڈ روم " کا شکار ہو چکا تھا یہ فالج کی ایک قسم ہے جس میں مریض کے دماغ کے علاوہ تمام جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔ بوبی کا پورا جسم مفلوج ہو چکا تھا جسم کے کسی حصے کو نہ حرکت دے سکتا تھا نہ بول سکتا تھا نہ کھا سکتا تھا اور نہ ہی چھو سکتا تھا، یہ معذوری کی انتہائی خوفناک شکل تھی لیکن پھر اللہ کی کیا کرنی ہوئی بوبی کے سننے کی حس لوٹ آئی۔

اب یہ سن سکتا تھا اور چند دن بعد اس کی بایاں آنکھ کی بینائی اور پلکوں کی حرکت بھی واپس آگئی، اب بوبی کی جسمانی صورتحال کچھ یوں تھی کہ وہ گرد و پیش کی آوازیں سن سکتا تھا، بائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا اور پلک جھپک کر اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار بھی کر سکتا تھا۔ بوبی کی زندگی اب ایک پلک پر کھڑی تھی، اس نے باقی زندگی ایک پلک کے ذریعے گزارنی تھی اور آپ سو چ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کا کس قدر مشکل کام ہے۔

بوبی ایک ایسی کتاب لکھنا چاہتا تھا کہ رہتی دنیا تک اس کا نام قائم رہے لیکن معذوری کے بعد اس کی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں تھی تاہم بوبی کی ہمت قائم تھی لہٰذا اس نے پلک کے ذریعے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی نے اس دوران اس کے ساتھ کمیونی کیشن کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا وہ بوبی سے سوال پوچھتی تھی اور بوبی جس بات پر پلک جھپک دیتا تھا، اس کا مطلب ہاں ہوتا تھا اور جس بات پر وہ پلک نہیں جھپکتا تھا اس کا مطلب انکار ہوتا۔

اس کی بیوی نے کتاب لکھنے کے سلسلے میں اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا، اس نے ایک اسسٹنٹ ہائر کیا یہ اسسٹنٹ ٹائپ رائٹر لے کر بوبی کے سامنے بیٹھ جاتا۔ اسسٹنٹ A سے لے کر Z تک حروف تہجی بولتا۔ بیوی بوبی کی پلک کی طرف دیکھتی رہتی اور جس حروف پر وہ پلک چھپک دیتا، یہ لوگ وہ حروف ٹائپ کردیتے اس کے بعد دوبارہ حروف تہجی بولے جاتے اور بوبی جس حروف پر پلک جھپک دیتا وہ بھی ٹائپ کر دیا جاتا، یہ حروف آہستہ آہستہ الفاظ بن جاتے اور تھوڑی دیر بعد فقرے بن جاتے یہ لوگ روزانہ چار گھنٹے کتاب لکھتے تھے۔

یہ مشق ایک سال تک مسلسل جاری رہی، بوبی دو منٹ میں ایک لفظ مکمل کرواتا تھا۔ اس نے ایک سال میں 2 لاکھ مرتبہ پلک جھپکی، یہ کتاب 1997 میں مکمل ہوئی اور 6 مارچ 1997 کو اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آگیا، پہلے دن اس کی 25 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں، ہفتے میں اس کی فروخت ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی اور ایک ماہ بعد یہ کتاب یورپ کی بیسٹ سیلر بن گئی۔ آج تک یہ کتا ب لاکھوں کی تعداد میں بک چکی ہے لوگ اس کی ہمت اور اپروچ پر حیران ہوتے تھے۔

یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو پلک سے لکھی گئی اور لکھنے والوں نے یہ کتاب ایک ایک حرف جوڑ کر مکمل کی اور بوبی نے ثابت کر دیا کہ اگر آپ کی ایک پلک بھی سلامت ہے تو آپ اس سے بھی کمال کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب 6 مارچ کو مارکیٹ میں آئی، بوبی کی بیوی نے بازار سے ایک کاپی خریدی اور بھاگتی ہوئی اس کے کمرے میں گئی۔ یہ کتاب بوبی کی زندہ آنکھ کے سامنے رکھی اور چلا کر بولی " تم کامیاب ہوگئے، دنیا میں اب تمہارا نام ہمیشہ قائم رہے گا۔ "

بوبی کی زندہ پلک رقص کرنے لگی وہ تیزی سے پلک جھپک رہا تھا۔ بوبی کی بیوی کو محسوس ہوا کہ وہ پلک کے ذریعے اپنی کامیابی پر تالیاں بجا رہا ہے اس کی بیوی نے بھی تالیاں بجانا شروع کردیں تالیوں کی اس گونج میں بوبی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اس کتاب کی تکمیل کے لیے زندہ تھا۔ بوبی کی کتاب کا نام "The Diving Bell and the Butterfly" ہے۔ کامیابی اتفاق نہیں بلکہ انتخاب ہوتی ہے۔

ایڈ گرالے گیٹ کہتا ہے " آپ صرف اتنا ہی کام کرسکتے ہیں، جتنا آپ سوچتے ہیں، اس سے زیادہ آپ کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتے اور اے نوجوان اگر تم خود سے ڈرتے ہو تو تمہارے لیے کامیابی کا امکان بہت کم ہے، کیونکہ ناکامی ہمیشہ انسان کے اندر ہوتی ہے اور اگر تم یہ سو چ لو کہ اس کام کو تم کرسکتے ہو تو چاہے حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہو جائیں تم کامیابی حاصل کر سکتے ہو۔ "

پاکستان کے عوام کی بدحالی، غربت، افلاس، بدامنی، دہشت گردی، بیروزگاری، بے اختیاری، حقوق سے محرومی کی ذمے داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود عوام پر عائد ہوتی ہے، جو ہر ظلم و زیادتی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کیا پاکستان کے عوام بوبی سے زیادہ مفلوج ہیں؟ کیا وہ بوبی سے زیادہ بے بس ہیں؟ کیا انھیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا؟ کیا انھیں اپنے آپ پر شرم نہیں آتی کہ پاکستان کے اصل مالک وہ ہیں جب کہ کوئی اور مالک بنے بیٹھے ہیں۔

پاکستان کے عوام یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لو۔ یہ ڈاکو، لٹیرے، ظالم، بے حس، استحصالی، جنہوں نے تمہارے حقوق و خوشحالی غصب کر رکھی ہے اول درجے کے بزدل اور ڈرپوک ہیں بس انھیں للکارنے کی ضرورت ہے پھر دیکھنا یہ کس طرح تمہارے سامنے گڑگڑائیں گے، کس طرح تم سے اپنے کیے کی معافی مانگیں گے۔ ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ تم بننا چاہتے ہو یا جو کچھ تم حاصل کرنا چاہتے یا جس کام کے لیے تم جدوجہد کررہے ہو، ان سب کے لیے تمہارے اندر ہی ایک طاقت موجود ہے۔ صرف اس کو جاننے اور اس کو کام میں لانے کی ضرورت ہے، ضروری کام یہ ہے کہ آپ محسوس کریں کہ آپ اس طاقت کے مالک ہیں، آپ کا پہلا مقصد اس سے واقفیت حاصل کرنا ہے۔

کارل سینڈ برگ کہتا ہے " سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے۔ " آپ کو بھی میری طرح الف لیلہ کے قصے بہت پسند ہونگے مجھے اب بھی الہ دین کا چراغ پڑھنے میں بہت مزا آتا ہے تین دفعہ چراغ کو رگڑنے سے ایک طاقتور جن حاضر ہوتا ہے، یہ الہ دین سے اس کی تین خواہشات پوچھتا ہے اور انھیں فورا پورا کردیتا ہے، جی ہاں صرف تین خواہشیں ایک وقت میں جب کہ آپ کے اندر ایسا جن چھپا بیٹھا ہے جو آپ کی ہر خواہش پوری کرسکتا ہے اور ہر وقت کرسکتا ہے، بس اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے آپ کے پاس خداداد صلاحیتیں موجود ہیں صرف ضرورت ہے، ان سے کام لینے کی ایک بار آپ نے اپنے اندر موجود اس جن کو بیدار کر لیا تو ایسے معجزے آپ کی ذات کے ذریعے سے رونما ہونگے جو کبھی آپ کے خواب و خیال میں بھی نہ ہونگے کوئی چیز دنیا میں ناممکن نہیں بس بوبی جیسے ارادے کی ضرورت ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran