Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Aftab Ahmad Khanzada/
  3. Aise Andhe Jo Dekh Sakte Hain Magar Dekhte Nahi

Aise Andhe Jo Dekh Sakte Hain Magar Dekhte Nahi

الکیمسٹ دنیا کا مقبول ترین ناول کیوں ہے؟ آپ اگر کبھی خود کو بھیڑوں کے پیچھے پیچھے، اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر دوڑتا محسوس کریں، غیر آباد سی وادی میں کوئی انجانا سا وجود آپ کو راستہ بھی بتا رہا ہو، اس سفر میں آپ کی منزل کوئی انمول خزانہ بھی ہو، تو آپ عظیم پرتگیز النسل ادیب پاؤلو کوئیلھو کے ناول الکیمسٹ میں کھو کر خود "سان تیا گو " ہوچکے ہیں۔

جی ہاں! سان تیا گو اسی اٹھارہ سالہ چرواہے کا نام ہے جو اسپین کی وادی میں بھیڑیں چرا رہا تھا، یہ وادی ہری بھری لیکن پتھریلی ہے پتھر سرخی مائل ہیں ان پتھروں سے پھوٹتی ہری بھری کونپلیں قدرت کے فن پاروں کی طر ح ہوا کے دوش پر جھوم رہی ہیں۔ چرواہا گو کہ کمسن ہے لیکن اس میں ایک خوبی ہے وہ ہوا کی سرسراہٹ سے لے کر پاؤں پڑنے سے پتھر کے لڑھک جانے کو بھی ایک نشانی کے طور پر لیتا ہے۔

سان تیا گو نے سفر سے پہلا سبق یہ سیکھا تھا کہ نشانیاں اکثر رونما ہوتی ہیں لیکن انھیں سمجھنا ہی قسمت کو اس کی درست ترتیب میں رکھتا ہے۔ اس ناول میں اصل میں کوئی ایک نہیں کئی ٹھوس پیغام چھپے ہیں۔

سان تیاگو مراکش میں کٹھن ترین ایک سال گزار کر وطن لوٹ رہا ہے۔ ساحلی شہر سے اسے اسپین جانے والے جہاز میں سوار ہونا ہے ایسے میں اس کا ہاتھ اپنے تھیلے میں موجود ان دو کراماتی پتھروں سے ٹکرا جاتا ہے اور یہیں پر وہ چونک سا جاتا ہے، یہاں اسے وہ پتھر دینے والا بوڑھا بادشاہ یا د آجاتا ہے جس کی تلقین کا خلاصہ یہ تھا کہ اپنے خواب کبھی نہ کھونا۔ نشانیوں پر نظر رکھنے والا سان تیاگو اس واقعے کو بے وجہ نہیں گردانتا، اسی لمحے اس پر ایک آمد ہوتی ہے وہ اس بات کو ایک نشانی کے طور پر لیتا ہے جیسے پتھروں نے شاید اسے اپنے خواب پورے کرنے کا مشورہ دیا ہو اور پھر اسی لمحے وہ وطن واپسی کا ارادہ ترک کردیتا ہے۔

کہانی میں نیا موڑ آجا تا ہے۔ سان تیا گو کو زندگی کے سفر میں رہبر بھی ملے اور رہزن بھی۔ لیکن منزل اور سفر کے لیے سب سے درست راستہ ان رہزنوں کے اس تمسخرانہ جملے نے دکھا یا جو انھوں نے اسے لوٹ کر چلتے ہوئے ادا کیا تھا، انھوں نے سان تیا گو سے کہا تھا کہ "تم بے وقوف ہو کہ ایک خواب پر بھروسہ کرکے خزانہ ڈھونڈنے یہاں اتنی دور چلے آئے۔

مجھے دیکھو کہ مجھے خواب آیا کہ اسپین میں چرچ میں پرانے بر گد کی جڑوں تلے خزانہ موجود ہے کیا میں وہاں دوڑ چلا گیا؟" اسی لمحے جیسے سان تیا گو کی سوچ، دنیا اور منزل کا رستہ ہی بدل گیا، رہزن اسے اس کے اپنے شہر اور علاقے میں خزانے کے چھپے ہونے کا راز بتا گیا۔

خزانہ تو وہیں تھا جہاں سے سان تیاگو چلا تھا یعنی اس کے قدموں میں۔ الکیمسٹ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ آپ کی زندگی کی سمت کسی کی بھی وساطت سے طے ہو سکتی ہے جانے میں بھی اور انجانے میں بھی۔ چاہے وہ کوئی اپنا ہو یا چاہے وہ کوئی رہزن ہی کیوں نہ ہو۔ راہیں کئی سمت مڑتی ہیں آپ نے کس راہ پر جانا ہے اس کے لیے الفاظ، واقعات اور دیگر نشانیوں پر نظر رکھنا شرط ہے۔ منزل اکثر ہمارے قدموں میں ہوتی ہے لیکن اسے ہم ڈھونڈ کہاں کہاں نہیں رہے ہوتے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے منزل سے کس قدر دور نکل جاتے ہیں جوں جوں ہماری تلاش بڑھ رہی ہوتی ہے منزل اتنی ہی دور ہورہی ہوتی ہے۔

پاؤلو کوئیلھو نے اس ناول کو صرف دو ہفتوں میں مکمل کیا تھا یہ1988 کا زمانہ تھا، ناول چھپا لیکن صرف 900 کاپیاں چھپنے کے بعد ہی سب ٹھپ ہو گیا۔ پبلشر نے مزید چھاپنے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں پاؤلو نے ایک اور کوشش کی تاہم ناول کی چند ہزار کاپیاں ہی فروخت ہوسکیں۔ 1994 میں تیسری بار پاؤلو نے یہ ناول چھپوایا تو دنیا کو اس کی قدر و قیمت کا احساس ہو ہی گیا۔ فروخت کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے 43 ملین کاپیاں 155 ممالک میں فروخت ہوئیں، اسے گنیز ورلڈ بک میں پرتگیزی زبان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول تسلیم کیا گیا۔

عظیم رائٹر گبر یل گارشیا مارکیز نے 22 اکتوبر 1982 کو میکسیکو سٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا "میں آج اپنے ناول تنہائی کے سو سال، کے ایک باب کی طرح ابھر ا ہوں جس کے متعلق میں بھول چکا تھا۔ میکسیکو کے لوگوں کے امتیازی اور داستانی حریفوں نے میرے اندر ہمت پیدا کی کہ میں اپنے اندر کے سکون کو تلاش کرسکوں۔ "

آج ہماری تنہائی کے 74 سال مکمل ہونے کو ہیں۔ ہم 74سالوں میں بھی اپنے آپ کو تلاش نہیں کر پائے ہیں۔ سکون، خوشحالی، آزادی، خوشیوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس سارے سفر میں فاصلے میں ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، ہم اپنے خوابوں کو یکسر بھول چکے ہیں۔ منزل کا کوئی نام و نشان مل کر ہی دے نہیں پارہا ہے۔ ہم نے کوئی بھی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جہاں ہمیں منزل ہمارے حساب سے مل سکتی ہے۔

آج ہم اپنے اندر اور باہر دونوں جگہ بھٹکتے پھررہے ہیں۔ اندھیروں میں ٹکرا ٹکرا کر خود کو زخمی پر زخمی کیے جار ہے ہیں۔ جتنی کوششیں ہم اپنے آپ کو سلجھانے کی کرتے ہیں اتنے اور زیادہ الجھ جاتے ہیں، اب تو ہر چیزسے یقین ہی اٹھ گیا ہے۔ اذیتوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو رک ہی نہیں پا رہا ہے۔ گھٹن اتنی کہ سانس لینا دوبھر ہوچکا ہے۔

نوبیل انعام یافتہ ادیب سارا میگو نے 1995 میں ناول " اندھا پن " لکھاتھا۔ "سرخ بتی پر سارا ٹریفک رکا ہوا ہے، بتی سبز ہوتی ہے سب گاڑیاں چل پڑتی ہیں سوائے ایک گاڑی کے جس کے اندر بیٹھا ہوا ایک آدمی چیخ رہا ہے چیختے چلا جا رہا ہے میں اندھا ہو گیا! میں اندھا ہوگیا، ایک نیک دل آدمی اس کی مدد کرتا ہے اور اسے گھر پہنچا دیتا ہے اور گھر پہنچا کر اس کی گاڑی چرا لیتا ہے کچھ دیر بعد وہ خود بھی اندھا ہوجاتا ہے جو ڈاکٹر اس سفید اندھے پن، کی تہہ تک پہنچنے کی کو شش کرتاہے وہ خود بھی اندھا ہوجاتاہے جلد ہی یہ بیماری پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے حکومت اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ان لوگوں کو ایک علیحدہ مقام پر بھیج دیتی ہے، لیکن اس وقت تک یہ بیماری اتنی پھیل چکی ہے کہ ہوائی جہاز، ٹریفک اور شہری نظام متاثر ہونے لگتا ہے، بس ڈاکٹر کی بیوی اس سے محفوظ ہے جو جھوٹ موٹ اندھی بنی ہوئی ہے۔

وبا کے پھیلنے اور بحران میں مبتلا لوگوں کے اخلاقی زوال کے نقشے جن کی وجہ سے نقادوں نے اس ناول کا موازنہ کامیو کے " طاعون " اور ولیم گولڈنک کے "لارڈ آف دی فلائز " سے کیا ہے، ایسی بلیغ نثر میں بیان کیے گئے ہیں کہ تناؤ اور خوف بتدریج بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

ناول کے آخر میں کہیں جاکر ڈاکٹر کی بیوی یہ کہتی ہوئی دکھائی جاتی ہے " ہم اندھے کیوں ہوگئے، مجھے نہیں معلوم، شاید ایک دن ہمیں معلوم ہوجائے، اگر تم مناسب سمجھو تو میں اپنا خیال بتادوں " "ہاں، ضرور بتاؤ، میں نہیں سمجھتی کہ ہم اندھے ہوگئے تھے بلکہ ہم اندھے ہیں اندھے ہیں مگر دیکھ سکتے ہیں ایسے اندھے جو دیکھ سکتے ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں۔ "

ہم سب 22کروڑ سارا میگو کے ناول " اندھا پن" کے کردار ہیں، ہم ایسے اندھے ہیں جو دیکھ سکتے ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں۔ خوشحالی، سکون، آزادی، کامیابی، خوشیاں سب ہمارے قدموں کے نیچے ہیں، جنھیں ہم اپنے قدموں کے علاوہ ہر جگہ ڈھونڈتے پھررہے ہیں، یہ چیزیں آپ کے شہر آپ کے علاقے میں ہی موجود ہیں اور آپ کی سالوں سے منتظر ہیں کہ آپ انھیں ڈھونڈ نکالیں۔ وہ چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا اعلان کررہی ہیں لیکن آپ ہیں کہ اندھے بھی بنے ہوئے ہیں اور بہرے بھی۔ دنیا میں ایک ہی شخص ہے جو آپ کی صلاحیتوں، قابلیتوں، کو محدود کرکے آپ کی ترقی، کامیابی، خوشحالی اور سکون میں رکاوٹیں بن سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں۔ باقی کائنات کی ہر شے آپ کو خوشحال، کامیاب، ترقی، خوشیاں دینے کے لیے بے قرار ہیں، آ پ کی مدد کے لیے بے قرار ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran