Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Aftab Ahmad Khanzada/
  3. Andheron Ko Sooli Par Charha Do

Andheron Ko Sooli Par Charha Do

آپ نے جنگی پناہ گزینوں کی وہ ولولہ انگیز داستان توسنی ہوگی جو ایک نہایت مشکل راستے کے ذریعے فرار ہونے کی منصوبہ بندی کررہے تھے چونکہ انھیں پیدل چلنا تھا اس لیے انھوں نے اس امر پر بہت زیادہ غور کیا کہ کیا وہ اپنے ساتھ ایک ماں اور اس کی چھوٹی بچی کو لے جاسکتے ہیں بالآخر انھوں نے اس بچی کو بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر لیا جسے ان میں شامل طاقتور مردوں نے اٹھانا تھا مسلسل تین دن وہ نہایت ہی مشکل کے عالم میں چلتے رہے اور ان کا راستہ مزید دشوار سے دشوار گزار ہوتا گیا بالآخر ایک بوڑھے آدمی کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ وہ اسے یہیں مرنے دیں اور اپنا سفر جاری رکھیں شاید اس طرح وہ بچ سکیں۔

بادل نخواستہ اور افسوس کے عالم میں قافلہ آگے بڑھنے لگا لیکن پھر ماں نے اپنی ننھی بچی کو اٹھایا اور بوڑھے شخص کے پاس واپس چلی گئی اس نے نہایت آہستگی کے ساتھ یہ بچی بوڑھے آدمی کی بانھوں پر رکھ دی اور نہایت سکون سے کہا " تم اس طرح اپنی ذمے داری سے دستبردار نہیں ہوسکتے اب میری بچی اٹھانے کی تمہاری باری ہے " پھر وہ ماں مڑی اور قافلے کے پیچھے روانہ ہوگئی تھوڑی دیر بعد انھوں نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو انھیں وہ بوڑھا شخص نظر آیا جو نہایت ثابت قدمی سے ان کے پیچھے آ رہا تھا اور بچی اس کے بازوؤں میں نہایت آرم سے بیٹھی ہوئی تھی۔

اس دنیا کی تاریخ رقم کر نے والے جب ایک عظیم مورخ سے یہ پوچھا گیا کہ اس نے تاریخ عالم سے کیا سبق حاصل کیا تو اس نے محض یہ جواب دیا " جب بہت زیادہ اندھیرا ہوجاتا ہے تو پھر ستارے چمکنے لگتے ہیں " یہ سچ ہے اور حقیقت ہے کہ ہم بائیس کروڑ آج گھپ سیاہ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں اتنے سیاہ اندھیروں میں کہ ہم ایک دوسروں کو بھی دیکھ نہیں پاہ رہے ہیں اور کامیابی، خوشحالی، ترقی، اختیار اور آزادی کی جانب جانے والا کوئی راستہ دکھائی دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور ستم تو یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی ستارے نہیں چمک رہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ ہمیں اندھیروں میں ڈبونے والے خود روشنیوں سے کھیلتے پھر رہے ہیں اب اس صورتحال میں یا تو ہم سب کامیاب ہوں گے یا پھر سب کے سب ناکام ہوجائیں گے تیسری کوئی بھی صورت ہمارے لیے نہیں بچی ہے۔

اب آپ اپنے آپ سے پوچھ لیجیے کہ ان دونوں صورتوں میں سے آپ اپنے لیے کونسی صورت پسند کررہے ہیں، یاد رہے تم سب کی کچھ نہ کچھ ذمے داریاں اور فرائض ہیں وہ تمام ذمے داریاں اور فرائض حسرت بھری نگاہوں سے تمہیں تک رہے ہیں، ذہن میں رہے تم سب کے سب نجانے کتنوں کی امیدیں ہوں نجانے کتنوں کے خواب ہوں نجانے کتنوں کی زندگیاں تمہیں پکار رہی ہیں۔ لہٰذا اب تم ہی سوچ لو کہ تم کیا اس طرح خاموش، چپ چاپ اور دبک کر بیٹھ کر اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے دستبردار ہو سکتے ہو۔

پومپی آئی کے سپاہی کا واقعہ کس نے نہ سنا ہوگا آج سے دو ہزار سال قبل کوہ وسوولس کی آتش فشانی سے پومپی آئی (اٹلی) کا سار ا شہر راکھ کے نیچے دفن ہوگیا تھا لیکن اب یہ شہر اپنی عمارتوں، سڑکوں اور باشندوں سمیت منظر عام پر آگیا ہے راکھ کے اس ہولناک طوفان میں ایک سپاہی نے جو فرض کا مظاہرہ کیا وہ لازوال ہے اس سپاہی نے موت کے ہنگامے کے باوجود پہرے پر سے ہٹنا گوارا نہ کیا اور جس مقام کی حفاظت کے لیے اسے مقرر کیا گیا تھا وہ وہاں سے ایک انچ نہ ہٹا وہ گندھک کے دھویں میں گھٹ کر مر گیا اور راکھ میں دفن ہوگیا لیکن اپنا فرض نبھاتا رہا وہ سپاہی خود اس کا نیزہ اور زرہ بکتر آج بھی نیپلز کے عجائب گھر میں موجود ہے۔

اب آپ ہی کہیے کیا آپ اس بوڑھے شخص اور اس سپاہی سے بھی گئے گزرے ہیں کیا آپ اتنے بزدل، ڈرپوک اور موت سے ڈرنے والے ہیں کہ اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے بھاگے جارہے ہیں ان سے ڈر رہے ہیں، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتلا دیجیے کہ آپ ان سیاہ اور کالے اندھیروں میں بغیر آواز کے کیوں دبکے بیٹھے ہیں چیختے چلاتے کیوں نہیں باہر نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے احتجاج کیوں نہیں کرتے، اندھیرے تو باہر ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اندھیرے تمہارے اندر بھی داخل ہوچکے ہیں اگر تم اٹھو گے نہیں تو پھر یاد رکھو جلد ہی یہ اندھیرے تمہیں نگل لیں گے۔

یہ دکھ اور غم کبھی کسی کو معاف نہیں کرتے ہیں یہ تیزاب کا کام کرتے ہیں کوئی چھوٹا سا دیا جلاکر اپنے آپ کو دیکھ لو تم آہستہ آہستہ گھل رہے ہو پگھل رہے ہو تم اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے مار رہے ہو، یاد رکھو ایسی تباہی جسے صرف انسان شروع کرسکتا ہے انسان ہی اس کو روک سکتا ہے ایسا وقت بھی ہوتا ہے جب ہم ناانصافی اور ظلم کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں، بے خواب راتوں کے بعد جب دن نکلتا ہے تو بھوت کو واپس جانا پڑتا ہے اور مرے ہوؤں کو اپنی قبروں کو لوٹ جانا پڑتا ہے۔

خلیل جبران نے کہا تھا " قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کوشش کرے جب اس کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہو" جب کہ والڈو کہتا ہے " انسانی زندگی کے سب سے بڑے دشمن وحشی حقائق نہیں بلکہ وہ بزدل انسان ہیں جو حقائق کا مقابلہ نہیں کرسکتے" ہر انسان اپنی ذات کی حد تک ہر فیصلے کا مکمل اختیار رکھتا ہے لیکن جب آپ کے فیصلوں کے اثرات آپ کے اپنوں پر اثر انداز ہوتے ہوں تو پھر آپ کو کسی بھی صورت غیر دانشمندانہ اور غیر عقلی فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

یاد رکھیں ذمے داریاں اور فرائض انسانوں کا پیچھا کرتے ہیں آپ اپنی ذمے داریوں اور فرائض سے فرار حاصل نہیں کرسکتے ہو۔ اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے اور آپ اپنے آپ سے شرمندہ اور شرمسار ہو رہے ہوں اور اپنے آپ پر لعنت ملامت کررہے ہوں آؤ مل کر ان اندھیروں کو سولی پر چڑھا دیں اور اپنے لیے خوش حالی، ترقی، کامیابی، آزادی کا راستہ خود بنا لیں اور آپ ذرا پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لیں ستارے نکل آئے ہیں اور پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں۔ اور وہ سب تمہارے اقدام کے منتظر ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran