آپ اگر ابھی تک اپنے آپ کو تلاش نہیں کر پائے ہیں اور ایک کامیاب انسان نہیں بن پائے ہیں تو یہ پریشان ہونے اور فکرکرنے کی بات ہے کیونکہ آپ کافی وقت ضایع کرچکے ہیں۔ یاد رکھیں! صرف آپ ہی ہیں جو اپنے آپ میں چھپے ایک کامیاب آدمی کو آزادی دلا سکتے ہیں اورکوئی دوسرا دنیا میں ہے ہی نہیں جو یہ کام کرسکے۔ اس لیے آپ اور وقت ضایع نہ کریں اور اپنے آپ میں چھپے ایک کامیاب آدمی کوکھوجنے کی کوشش آج ہی سے شروع کر دیں۔
اس سے پہلے آئیں! پہلے مائیکل اینجلوکا قصہ سنتے ہیں وہ 1475 میں Capressکے ایک گائوں میں پیدا ہوا، وہ کہتا تھا فطرت نے ایک ظلم یہ کیا ہے کہ بڑے بڑے اعلیٰ شاہکار پتھروں میں قید کردیے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ ہر پتھر میں ایک مجسمہ ہے۔ سقراط نے برسوں پہلے یہ ہی بات کہی تھی 1501میں اینجلو کو ایک مشکل کام سونپا گیا۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ فلورنس کے کیتھڈرل میں 13 فٹ اونچا سنگ مرمرکا ٹکرا کئی برسوں سے پڑا ہوا تھا۔ اس وقت کے عظیم مجسمہ سازوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اس میں سے کچھ تخلیق کریں۔ ان میں لیونا رڈو ڈاونسی بھی شامل تھا لیکن سب نے اسے بے کار تصورکرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ پھرکئی برس بعد اینجلو نے اس" بے وقعت اور بے قدروقیمت " سنگ مر مرکے ٹکڑے پر اپنے کام کا آغازکیا۔
ایک دن ایک چھوٹا سا لڑکا اینجلزکے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو اس نے لڑکے کو جواب دیا کہ " اس چٹان کے اندر ایک فرشتہ قید ہے میں محض اسے آزاد کرنے کی کوشش کررہا ہوں " اینجلو نے اس پر اڑھائی سال محنت کی اور اس نے اس بے کار پتھرکے ایک ایک انچ میں جان ڈال دی اور اسے The Statue of David بنا دیا، جسے نشاۃ ثانیہ کا اہم ترین شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔
اس مجسمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جدید اور قدیم عہدکے لاطینی اور یونانی مجسموں میں اسے اولیت حاصل ہے، اگر ہم غورکریں تو ہم سب سنگ مر مرکے بڑے پتھروں کی مانند ہیں ہمارے اندر ایک انتہائی کامیاب، خوشحال اور ذہین آدمی قید ہے بس وہ اپنی رہائی چاہتا ہے ہم سب ایک عظیم مجسمہ ساز کا انتظارکر رہے ہوتے ہیں کہ و ہ آئے اور ہمارے اندر قید ایک کامیاب آدمی کو رہائی دلوا دے۔ یاد رکھیں وہ عظیم مجسمہ سازکوئی اور نہیں آپ خود ہیں آپ ہی اینجلوہیں بس آپ کو اپنے آپ کی پہنچانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے سماج کا المناک المیہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت ہمیشہ خود شناسی سے محروم رہی ہے جیسا انھیں بننا چاہیے تھا وہ نہیں بن سکے بلکہ اس کے بجائے وہ بن گئے جیسا انھیں نہیں بننا چاہیے تھا۔
اینجلو پیٹری جنھوں نے " تربیت اطفال " کے موضوع پر تیرہ کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے ہیں۔ کہتے ہیں " اس شخص سے زیادہ بدنصیب کون ہوگا جو وہ بننا چاہتا ہے جو وہ جسمانی اور دماغی اعتبار سے خود نہیں ہے " جیسے بھی ہو ویسا بننے کے لیے تیار ہونے کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ تاریخ۔
ڈاکٹر جیمزگورڈن کے الفاظ میں " اور اتنا ہی آفاقی ہے جتنی کہ زندگی" آئیں ! اب ہم آپ کو آپ میں چھپے ایک کامیاب، خوشحال آدمی کوتلاش کرنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ ایک اخباری نمایندہ بڑے جوش و خروش سے ونسٹن چرچل کے پاس اس کی عظمت کا راز معلوم کرنے کے لیے گیا "آخر زندگی میں جیتنے اور چھا جانے کا کیا رازہے؟ کیا صلاحیتیں، توانائی اور تعلیم ہی مٹی کو سونا بنانے کا گر ہے؟
اخباری نمایندے نے اپنے دل کی بے ترتیب دھڑکنو ں پر قابو پاتے ہوئے پوچھا " اوں … ہوں " چرچل نے اپنا بھاری بھرکم سر ہلایا اور پھر مسکرا کر بولا " یہ چیزیں بھی مدد دیتی ہیں لیکن میرے خیال میں عظمت اور جیتنے کا ایک ہی راز ہے آپ کو لمحہ پہنچانے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ لمحہ پہچاننے کا سلیقہ " اخباری نمایندے نے حیرانی سے چرچل کی طرف دیکھا "ہاں لمحہ پہچاننے کاسلیقہ " چرچل نے زور دیتے ہوئے کہا "جیتنے والا، فتح پانے والا جانتا ہے کہ لمحے کو کیسے پہچانا جائے۔
کس لمحے فیصلہ کیاجائے کس لمحے آگے بڑھا جائے یا پیچھے ہٹاجائے۔ وہ ضرورت کے وقت بولتا ہے ورنہ خاموش رہتا ہے وہ اسٹیج کے کسی کردار کی طرح عین وقت پر سامنے آتا ہے اور چھا جاتاہے زندگی میں کامیابی کی کنجی موزوں لمحے کی پہچان ہے شادی میں، ملازم میں، محبت میں، تعلقات میں ہر جگہ یہ کنجی کام دیتی ہے کھل جاسم سم کی طرح آپ پر کامرانی کے دروازے کھل جاتے ہیں فتح یابی اور مسرتیں آپ کا تعاقب کرتی ہیں بس درست لمحہ پہچانیں اورکرگزریں گے کامیابی کے اسی راز کو شیکسپیئر اپنے انداز میں بیان کرتا ہے کہ "ہر شخص کی زندگی میں ایک دن ایسا آتا ہے جو اس کی پوری زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے وہ دن سمندرکی دیوقامت لہرکی طرح اس کی زندگی میں داخل ہوتا ہے اگر وہ شخص اس لہرکو پہچان لے تو ہ اچھل کر اسے کامیابی کی بلندیوں پر لے جاتی ہے ورنہ وہ پوری زندگی ناکامی اور پچھتاوے کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے" اگرآپ اب بھی اپنی زندگی میں ناکام رہتے ہیں تو اس کے سارے کے سارے ذمے دار آپ خود ہونگے۔ کوئی اور نہیں ہوگا اور نہ ہی دنیا ہوگی۔