چلیں دیر سے ہی سہی پانچ دہائیوں بعد بالآخر دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہونے جارہا ہے۔ اگلے روز عمران خان نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور سائٹ پر کام کے آغازکا افتتاح کیا۔ اس منصوبے کے تحت 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوسکے گا اور ڈیم سے 12 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوسکے گی جب کہ منصوبے سے 4500 میگاواٹ سستی بجلی مل سکے گی۔
سیمنٹ اور اسٹیل کی صنعتوں کو ترقی ملے گی، منصوبے سے 16ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی اور نیشنل گرڈ کوسالانہ 18 ارب 10 کروڑ یونٹ پن بجلی ملے گی، اس کے علاوہ ملک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے گا جب کہ قومی خزانے کو سالانہ 290 ارب کا فائدہ ہوگا۔ دیا میر بھاشا ڈیم بنانے کا مقام نانگا پربت کے قریب ہے۔
نانگا پربت پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا نواں بلند ترین پہاڑ ہے، کوہ پیما اسے کلر ماؤنٹین بھی کہتے ہیں، یہ قاتل پہاڑ گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر میں واقع ہے، نانگا پربت کے دامن میں فیری میڈوز جیسی خوبصورت وادی ہے اور اس وادی سے نیچے چلاس اور چلاس سے 41 کلومیٹر کے فاصلے پر بھاشا گاؤں آباد ہے، نانگا پربت کے گلیشیئرز سے درجنوں ندیاں نکلتی ہیں، یہ بھاشا کے قریب پہنچ کر دریائے سندھ میں گر جاتی ہیں، اس مقام پر ڈیم بنانے کا خیال ماہرین کے دماغ میں اس وقت آیا جب اس علاقے کا فضائی جائزہ لیا جا رہا تھا۔ یہ علاقہ تین اطراف سے پہاڑوں میں اٹا ہوا ہے جب کہ محض ایک طرف بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی قدرتی طور پر یہ پاکستان کے لیے بنا بنایا ڈیم ہے۔
اس ڈیم پر کل لاگت 15ارب ڈالر سے زائد آرہی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ بنا بنایا ڈیم ہے تو اس پر 15ارب ڈالر لاگت کیوں آرہی ہے۔ اصل مسئلہ یہاں پر سامان کی ترسیل ہے، گلگت سے اس علاقے تک اگر سفر کیا جائے تو عام چھوٹی گاڑی 7سے 8گھنٹے میں بمشکل پہنچتی ہے، پتھریلے راستے میں بربرے پہاڑ آتے ہیں جن کی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بنا بنایا راستہ تباہ ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس راستے کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے کم و بیش 2ارب ڈالر درکار ہیں اور کم از کم 3سال کا عرصہ درکارہے۔
اُس کے بعد بند باندھنے اور ٹربائن کی ترسیل کا کام ہوگا۔ جنرل پرویزمشرف نے 2006 میں یہاں بھاشا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا، وزیراعظم شوکت عزیز نے 2007 میں اس کا سنگ بنیاد رکھا، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ ڈیم نئی حکومت کو ترکے میں مل گیا، یوسف رضا گیلانی نے بھی اکتوبر 2011میں ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا، میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو انھوں نے بھی دو وزراء اعظم کے سنگ بنیاد کے اوپر سنگ بنیاد رکھ دیامگر تین سنگ بنیادوں کے باوجود یہ ڈیم نہ بن سکا، یہ 2016 میں مکمل ہونا تھا لیکن قوم کے دس سال اور اربوں روپے ضایع ہونے کے باوجود یہ نہ بن سکا۔
ان دس برسوں میں ڈیم کی لاگت 395ارب روپے سے 928 ارب روپے ہو گئی اور پراجیکٹ مشکل ہوگیا، یہ ڈیم اگر بن جائے تو پاکستان کو بے شمار فائدے ہوں گے، لیکن اب جب کہ اس کی تعمیر کا آغاز ہوچکا ہے تو یقین واثق یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کا یہ عوام کے لیے بہترین تحفہ ہوگا، اور یہ ہوگا بھی بالکل اُسی طرح جس طرح 60اور 70کی دہائی میں بیوروکریسی کا عوام کے لیے تحفہ ہوا کرتا تھا۔
اگر آپ دنیا کی تاریخ کے اوراق کھنگالیں توملک ہمیشہ بڑے منصوبوں کے ساتھ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، جیسے چین، امریکا، جرمنی، ملائیشیا نے گزشتہ 50سالوں میں بالترتیب 4ہزار، 32سو، 26سو اور 18سو بڑے پراجیکٹ شروع کرکے ملکوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ کبھی قوموں پر مشکل وقت نہ آئے ہوں، ہر ملک نے مشکل ترین معاشی وقت دیکھے ہیں۔
جیسے 1940 میں امریکا شدید مالیاتی بحران کا شکار تھا، امریکی صدر روز ویلٹ نے معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے پورے ملک میں میگا پروجیکٹس شروع کیے۔ صدر کے دوست لیلین تھال کو امریکا میں ڈیم بنانے کی ذمے داری دی گئی مگر لیلین تھال کی دو شرائط تھیں۔
پہلی فیصلوں کی آزادی اور دوسری صرف صدر کے سامنے جوابدہی۔ لیلین تھال نے دریائے ٹینیسی پر درجنوں ڈیم بنائے۔ ڈیموں کی تعمیر کے دوران لیلین کو معلوم ہوا کہ جوہری توانائی سے بجلی حاصل کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ وہ یہ منصوبہ لے کر امریکی صدر کے پاس گیا، جس نے لیلین کو اٹامک انرجی کمیشن کا سربراہ بنادیا اور اس طرح لیلین تھال امریکا میں جدید ڈیموں اور اٹامک انرجی کا بانی کہلانے لگا۔ انھی دنوں قیامِ پاکستان کے بعد بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا۔
امریکا پاکستان کو کامیاب، ترقی یافتہ اور مضبوط ملک دیکھنا چاہتا تھا۔ لیلین تھال 1950 کی دہائی میں سرکاری افسروں کو لیکچر دینے پاکستان آیا اور ملک کی خوبصورتی اور لوگوں کی محبت سے بہت متاثر ہوا۔ لیلین نے پاکستان کو پانی اور بجلی میں خود مختار بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ورلڈ بینک کے صدر یوجین رابرٹ بلیک، لیلین کا دوست تھا، وہ اسے پاکستان لے آیا اور اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون جنہوں نے 1958میں صرف تین ملین ڈالر میں سلطنت عمان سے گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کیا تھا جو آج سی پیک کا محور ہے، نے لیلین تھال کے مشورے پر پاکستان میں واٹر اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) قائم کی۔
پھر پاکستان نے 1962 میں منگلا ڈیم کی تعمیر کا عالمی معاہدہ کیا جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سول انجینئرنگ کنٹریکٹ تھا۔ پاکستان کے پاس ڈیم کی تعمیر کے لیے مجموعی لاگت کا صرف 15فیصد تھا جب کہ باقی 80فیصد رقم ہمیں 17ممالک نے گرانٹ کی شکل میں دی۔ 2سال بعد تربیلہ ڈیم پر بھی کام شروع ہو گیا جو منگلا ڈیم سے دگنا بڑا منصوبہ تھا جس کا 3ممالک کی کمپنیوں نے مل کر ٹھیکہ لیا۔
امریکا دنیا کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی MITکے طالبعلموں کو ہوائی جہاز کے ذریعے پندرہ دن کے لیے پاکستان ڈیموں کی سائٹ پر لاتا تھا۔ تربیلہ ڈیم اس دور کا اہرامِ مصر تھا اور پوری دنیا کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں نے اس پر مقالے لکھے۔ منگلا اور تربیلہ ڈیم اپنی مدت سے کم وقت میں مکمل ہوئے اور دنیا پاکستان کے جذبے، شفافیت اور قوتِ فیصلہ کی معترف ہو گئی۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کو منگلا اور تربیلہ ڈیم کے علاوہ کالا باغ ڈیم بنانے کی بھی تجویز دی تھی جو منگلا اور تربیلہ کے مقابلے میں نسبتاً آسان تھا چنانچہ واپڈا نے فیصلہ کیا کہ ہم امریکی انجینئرز سے منگلا اور تربیلہ ڈیم بنوا لیتے ہیں اور اس دوران ہمارے تربیت یافتہ انجینئرز خود کالا باغ ڈیم بنا لیں گے۔
یہ ہماری وہ غلطی تھی جس کا قوم آج تک خمیازہ بھگت رہی ہے۔ 1958سے 1971 تک اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں ترقی کے دروازے کھول دیے۔ اس دور میں ملک کو جتنے ایماندار اور وژنری بیورو کریٹس، سفارتکار اور سیاستدان ملے، دوبارہ نصیب نہیں ہوئے۔ اس دور کے بیورو کریٹس ریاست کے لیے ہر فیصلہ ملکی مفاد میں اللہ کا حکم سمجھ کر کرتے تھے۔ نیویارک کا روز ویلٹ ہوٹل ہو یا امریکا، لندن، فرانس اور اٹلی کے سفارتخانے جن کی عمارتیں دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں کیونکہ ان اداروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی غلام اسحاق خان یا غلام فاروق جیسا بیورو کریٹ ہوتا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد رکھی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنا دیا۔
لہٰذاآج بھی ایسی ہی ایمانداری کی ضرورت ہے، اس وقت منصوبہ شروع کرنا بڑی بات نہیں ہے بلکہ منصوبے کی تکمیل زیادہ ضروری ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے بھی کئی بار بڑے پراجیکٹس شروع کیے گئے مگر معاملات کھٹائی میں پڑتے رہے، اس لیے عمران خان کی قیادت کا یہ بڑا امتحان ہے جس پر اُن کی اگلے دور کی قیادت منحصر ہے۔ وہ اچھی ٹیم بنائیں، آج بھی انھیں بیوروکریسی میں سے ایسی ٹیم مل جائے گی جس کی شہرت اچھی ہوگی۔ اور اگر اس حوالے سے کسی نے بھی سستی دکھائی یا حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر کام نہ کیا تو ہم گزشتہ 5دہائیوں کی طرح اس بار بھی شاید خسارے میں رہیں!