"کورونا بجٹ" کی آمد آمد ہے، اسمبلی اجلاس بلائے جا رہے ہیں، اور شنید ہے کہ بجٹ اجلاس ہوٹلز میں یا اسمبلی میں کرائے جائیں گے، اگر ہوٹلز میں کرائے جاتے ہیں تو کم و بیش 3000ہزاروپے فی کس فی دن خرچ آئے گا اور یہ خرچ کروڑوں روپے میں چلا جائے گا۔
جب کہ اس طرح کے اقدامات کی ایک بار مخالفت وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ بھیڑ چال چلنے سے بہتر ہے کہ اپنی پارٹی کو سیدھی راہ دکھائی جائے، اس لیے انھوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کورونا صورتحال کے پیش نظر ورچوئل (آن لائن) اجلاس بلایا جائے، کیوں کہ مہلک وائرس 5اراکینِ پارلیمان کی جانیں بھی لے چکا ہے، ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
جب کہ فواد چوہدری کی تائید دیگر کہنہ مشق سیاستدان بھی کر رہے ہیں جیسے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے فواد چوہدری کے خدشات کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اجلاس میں جسمانی موجودگی سے متعلق خدشات درست ہیں۔ حالانکہ برطانیہ، امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جہاں 7اسٹار ہوٹلز حکومتوں کی ملکیت ہیں وہاں اجلاس زیادہ تر آن لائن ہو رہے ہیں۔ وزیر موصوف کی یہ تعریف نہیں بلکہ ان کے بولڈ "اقدامات" اور اعلانات ہمیشہ سچ ثابت ہو رہے ہیں جیسا کہ چاند دیکھنے کے حوالے سے اُن کی پیش گوئیاں اور ایک خاص طبقے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا اور پھر حالیہ بجٹ اجلاس کے اقدامات۔
یعنی وطن عزیز میں گزشتہ 3ماہ میں کورونا کے وبائی مرض کا شکار مریضوں کی تعداد 25ہزار تھی جب کہ حالیہ چند دنوں میں مریضوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ اس وقت ملک کے سرکاری اسپتال کورونا کے مزید مریض لینے سے انکار کر رہے ہیں، جب کہ پرائیویٹ اسپتالوں کا ایک دن کا خرچ اتنا زیادہ ہے کہ عام آدمی وہاں داخل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جب کہ حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نیوزی لینڈ کے بعد پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے 90فیصد لاک ڈاؤن ختم کر دیا ہے، نیوزی لینڈ نے تو یہ فیصلہ وہاں مرض کے خاتمے کے سبب کیا ہے لیکن پاکستانی حکومت نے یہ فیصلہ انتہائی عجلت میں کرکے پورے ملک کو اجتماعی خودکشی کی طرف دھکیل دیا ہے۔
اب اس فیصلے کو جہاں دنیا بھر میں عجیب و غریب کہا گیا وہاں پاکستان میں بھی وہ لوگ جو کورونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے، مزید لاپروا ہو گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 92 فیصد کورونا اس وقت مقامی طور پر پھیل رہا ہے تو اس دوران کیا سماجی فاصلہ ضروری نہیں؟ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک مکمل لاک ڈاؤن ہو جس سے اس کے مقامی پھیلاؤ پر بریک لگ جائے۔
اگر صرف سات دن بھی حکومت مکمل لاک ڈاؤن کرجاتی تو کورونا اتنا نہیں پھیلتا جتنا اس وقت پھیل گیا ہے۔ جب کہ ہمارے "رول ماڈل" وزیر اعظم تو خود میڈیا پرسنز کے ساتھ ٹی وی پر لائیو ہوتے رہے تو باقی عوام بھی میل ملاپ میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے۔
میرے خیال میں حکومت کورونا وائرس کو لے کرایک موثر حکمت عملی لانے میں ناکام رہی ہے۔ حقیقت میں جب وبائیں اور آفات آتی ہیں تو قوموں کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ آج پاکستان اور ہندوستان کو صرف کورونا وائرس کا نہیں بلکہ ٹڈی دل کا بھی سامنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں صرف ایک نہیں دو دو آفتوں کا سامنا ہے لیکن ذرا اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ کیا ہم ان آفتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم نے اپنی اپنی اناؤں کے بت توڑے یا نہیں؟
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ طے ہے کہ کورونا اب ایک طویل عرصے کے لیے رفیق حیات ہے۔ صحت کے بعد معیشت۔ جسے کورونا نے 60فیصد سے زیادہ تباہ کر دیا ہے اور ایسے میں بجٹ اجلاس سے بھی کوئی خیر کی توقع نہیں کر نی چاہیے، کیوں کہ یہاں لوگ بچ پا رہے ہیں نہ کاروبار۔ 77غریب ملکوں کو اِسی سال 62 ارب ڈالرز قرض و سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوں گے، جب کہ آئی ایم ایف کے مطابق قرض خور ممالک کو250ارب ڈالرز چاہئیں، جن میں پاکستان کو بھی تقریباً 15 ارب ڈالرز درکار ہیں۔
36 غریب ملکوں نے قرضوں کی ادائیگی معطل کرنے کی درخواست دی ہے اور اب جب کہ کوروناکے عروج کے دوران 12 جون کو نیا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس لیے فواد چوہدری کی تجویز کو مدنظر رکھتے ہوئے آن لائن اجلاس بلایا جائے اور پھر ایسے پارلیمنٹرین کی فہرست بنائی جائے جو بجٹ اجلاس میں حصہ ہی نہیں لیتے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسے پارلیمنٹرینز کی تعداد 80سے 90فیصد ہے۔ لہٰذاایسے اراکین کو اس آن لائن اجلاس میں بلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ایسا کرنے سے اُن پارلیمنٹرین کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہوگا۔ قصہ مختصر اگر حکومت مزید بدحواسی کا شکار نہ ہوئی تو پاکستان میں نیا بجٹ ٹیکس فری ہو گا۔ کیوں کہ اس سال نئے ٹیکسوں کی بات کرنا ظلم ہے کیوں کہ عوام اس وقت اپنے Survival کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
بہرکیف تمام تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر ایسی پالیسی بنانی چاہیے جس پر صوبے اور وفاق ایک پیج پر ہوں۔ اس بات کا بھی تعین کیا جائے کہ عوام اور تاجروں میں سے کون کون ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہے؟ کیا موجودہ صورتحال میں کورونا کے خلاف جنگ "مذاق" بن کر نہیں رہ گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے وقت جہاں ناتجربہ کار حکمرانوں کو یہ اندازہ نہ تھا کہ ملکی معیشت اور مختلف شعبوں کی زبوں حالی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی، وہاں جہاندیدہ حکمران طبقات نے اس موقع کو غنیمت جانا، جس کی وجہ سے مختص فنڈز کے خورد برد ہونے سے لے کر دکانداروں سے بھتہ طلب کرنے کی باتیں عام ہوئیں۔
یہ دونوں طرزِ عمل ہی دراصل کورونا کے خلاف جنگ کی ناکامی اور اس حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کا باعث بنے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے پاس پریس کانفرنسز اور اجلاس کرنے کے علاوہ کچھ کام نہیں۔
خلیج اور دوسرے ممالک سے لاکھوں پاکستانی بیروزگار ہوکر واپس آ چکے ہیں۔ حکومت کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں۔ الغرض حکومت کے سامنے سیکڑوں قسم کے مسائل ہیں جن سے نمٹنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور ملک کو بھی ہر حال میں بچائے رکھنا ہے۔