آج کشمیر کا مسئلہ 72سال میں پہلی مرتبہ نہایت نازک موڑ پر آگیا ہے، پاکستانی قیادت نے اس مسئلے کو دنیا کے سامنے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا ارادہ کیا ہے جب کہ پاکستانی عوام بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گہرے جذبات رکھتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ اب یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو جانا چاہیے۔
ہماری خارجہ ٹیم نے پہلے سے تو بہت بہتر کام کیا ہے۔ سابقہ سیاستدانوں اور حکومتوں نے اس مسئلے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا، ورنہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے 7دہائیاں کافی ہوتی ہیں۔ اب اگر اسٹینڈ لینا ہے تو حوصلے کے ساتھ لیں، ڈریں نہیں، جس طرح انڈیا تمام عالمی قوانین کو روند دیتا ہے ہمیں بھی اس کا جواب دینا چاہیے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے راستے سے ہونے والی انڈیا افغان تجارت کو پاکستان نے بند کر دیا تھا، جس سے پاکستانی کسانوں کو فائدہ ہوا تھا اور انڈیا کو شدید نقصان پہنچا تھا، جب کہ بعد ازاں نئی آنے والی ن لیگ کی حکومت نے اسے دوبارہ بحال کردیا۔
ہمیں بھارت کے لیے فضائی حدود کو بھی بند کر دینا چاہیے، پچھلے دنوں یہ حدود بند کر دی گئیں تھیں جس سے انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا، اس سے یقینا بھارت راہ راست پر آسکتا ہے۔ اور یقینا یہ وقت کی ضرورت ہے بھی ہے کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کہ اب ہمیں انڈیا کے بغیر رہنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
خیر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے میں پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تین چار جنگیں کشمیر پر ہی لڑیں، آپریشن جبرالٹر سے لے کر کارگل آپریشن تک کے ایڈونچرز بھی کشمیراور کشمیریوں کے لیے ہی کیے گئے۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے۔
پاکستانی قوم، ریاست اور ہمارے تمام حکمرانوں نے کشمیر کو کبھی بھلایا نہیں۔ کسی نہ کسی انداز اور زاویے سے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جاتا رہا۔ یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستانی حکومت مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتی۔
ہمارے ہاں مختلف فارمولے گردش کرتے رہے ہیں، جنرل مشرف کے دور سے پہلے بھی کہیں نہ کہیں مختلف تجاویز چلتی رہیں، جنرل مشرف نے تو باقاعدہ چناب فارمولے سمیت مختلف آپشنز پر سوچنا شروع کیا۔ بلکہ یہ سب انگریزی محاورے کے مطابق ٹو مچ ہوگیا، حتیٰ کہ گیلانی صاحب جیسے قد آور کشمیری لیڈر کو کھل کر اس کی مذمت اور مخالفت کرنا پڑی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ایسا نہیں کہ موجودہ پاکستانی حکومتیں یا ریاست کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے رکھنا چاہتی ہیں۔
الغرض یہاں تو ہر قسم کی آپشن پر غور کیا جاتا رہا، اس حوالے سے رکاوٹ ہمیشہ بھارتی جانب سے آئی ہے۔ لیکن ابھی بھی ہمیں چاہیے کہ تدبر سے کام لیا جائے۔ ریاست کی جانب سے آج کے احتجاج کی کال کی اہمیت اپنی جگہ مگر جارحانہ سفارت کاری بھی وقت کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ یورپی اور امریکی میڈیا اس ایشو کو سمجھنا چاہ رہا ہے۔
یہ سنہری موقعہ ہے کہ پاکستان مختلف وفود یورپ کے مختلف ممالک اور امریکا بھیجے جو وہاں سول رائٹس تنظیموں، خواتین کے حوالے سے سرگرم گروپ، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں، بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے متحرک گروپ، تنظیموں سے ملاقاتیں کریں، انھیں بریفنگ دیں، ویڈیو کلپس، تصاویر دکھائیں اور کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کو اجاگر کریں۔
اس کے لیے زیادہ بہتر ہے کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھیجا جائے، وہ کشمیری ہیں اور انھیں اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھانے کا فطری حق بھی حاصل ہے۔ اچھی انگریزی بولنے والی، مدلل انداز میں ابلاغ کرنے والی کشمیری خواتین کو چنا جائے اور تجربہ کار سفارتکاروں کی بریفنگ دلوا کر باہر بھیجا جائے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ریٹائر تجربہ کار سفارت کاروں کو ہائر کیا جائے اور انھیں ایسے گروپوں کے ساتھ بھیجا جائے۔ انھیں پھیل کر کام کرنا چاہیے۔ بعض برلن کا رخ کریں، کسی کو لندن، پیرس، برسلز اور دیگریورپی شہروں کا رخ کرنا چاہیے، ترک دارالحکومت انقرہ بھی جانا چاہیے۔ بہتر ہے کہ یہ خواتین ارکان اسمبلی، تھنک ٹینکس، خواتین گروپوں سے ملیں، ا نہیں مظالم کے بارے میں بریف کریں۔ مغرب میں خواتین اور سول رائٹس گروپ کی خاص اہمیت اور اثر و رسوخ ہے۔
ان وفود کو بھرپور بریفنگ کے ساتھ عالمی اداروں کی کشمیر کے حوالے سے بنائی گئی رپورٹس پڑھانی چاہئیں۔ یہ رپورٹیں آنکھیں کھول دینے والی ہیں اور باقاعدہ مستند اعداد وشمار کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم اور آرا یس ایس کی فسطائیت پر مبنی سوچ کو ہدف بنا کر درست حکمت عملی اپنائی ہے۔ RSS کے فلسفے کو مغرب میں بے نقاب کرنا چاہیے۔
ان خواتین وفود کو بھیجنے میںبھی جلدی کرنی چاہیے، ستمبر میں جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے، اس سے پہلے یورپی دارالحکومتوں میں اگر موثر مہم چلائی جائے تو اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں ہر فورم پر ہمیں بھارت کو اپنا دشمن سمجھنا چاہیے، اس کی طرف سے کچھ بھی ممکن ہے، ہر حملے، ہرسازش کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
خدانخواستہ حملہ ہوجائے تو پھر ہر آپشن کو آزمایا جائے، تب Do or Dieکی صورتحال ہوگی۔ تاہم یاد رکھنا چاہیے پاکستان اس وقت شدید بحرانوں کا شکار ہے، اکانومی اس قابل نہیں کہ ہم جنگ کے لیے پہل کریں۔ افغانستان کا معاملہ بھی فیصلہ کن مرحلے پر ہے، ادھر بھی ہمیں توجہ مرکوز رکھنی ہے۔ اس لیے سردست کھلی جنگ یا ناکافی تیاری کے ساتھ کسی ایڈونچر سے گریز کرتے ہوئے ہمیں بھرپور اورجارحانہ سفارت کاری پر فوکس کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔
اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے عالمی میڈیا کا کردار بہت اہم اور Fruitfullہو سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں ہر جگہ بھارتی صحافی موجود ہیں۔ کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے اس کی تفصیل عالمی میڈیا میں شایع ہو تو مغربی دنیا میں رائے عامہ کا دباؤ ان کی حکومتوں کو کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کرے گا۔
حکمت اور ہنرمندی سے اگر اس ایشو کو " پاکستان بمقابلہ بھارت" کے بجائے "بھارتی مظالم بمقابلہ کشمیری عوام" والی مساوات سے سمجھایا جائے تو اس کا اثر زیادہ ہوگا۔ میڈیا ہی کے دو میدان اور بھی ہیں۔ فلم میکنگ اور دوسرا سوشل میڈیا۔ بہرکیف پاکستان اگر اس حوالے سے مسئلے کا حل چاہتا ہے تو وہ برابری کی سطح پر بات کرے، بھارت کے حوالے سے ہم دو تین باتیں طے کر لیں۔
بھارت کے ساتھ تجارت نہیں کرنی۔ کشمیریوں کے لہو پر کی گئی تجارت پر لعنت بھیج دینی چاہیے۔ ہمیں بھارت سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔ کرکٹ کے حوالے سے بار بار ان سے سیریز کھیلنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ اب اس پر بھی یکسو ہوجائیں۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائیں۔
آخر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ دنیا کو ہماری سنجیدگی کا تب علم ہوگا جب ہم اپنے رویے سے اس کا اظہار کریں گے۔ مودی کو اس حوالے سے جھوٹ بولنے دیں، فی الوقت دنیا کو وہ انگلیوں پر نچا رہا ہے، اس لیے اس کی ہر بات سب کو سچ لگ رہی ہے، اسی حوالے سے پروین شاکر نے کہا تھا کہ
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
لہٰذااس جھوٹ سے ہم نے ہر ممکن اور ہر لحاظ سے جان چھڑانی ہے، خواہ اس کے لیے ہمیں انتہائی بولڈ فیصلے ہی کیوں نہ کرنے پڑیں مگر کشمیر کا فیصلہ وہاں کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق ہو ہی جانا چاہیے کیوں کہ وہ حق پر ہیں!