دسمبر آنے والا ہے، وقت حاضر کے بہت سے سیاسی "ولیوں " کی پیش گوئیاں اس "دسمبر" تک تھیں، بہت سے کہہ رہے تھے کہ "ان ہاؤس" تبدیلی ہونے والی ہے، بہت سے کہہ رہے تھے کہ بہت کچھ مائنس پلس ہونے والا ہے، بہت سوں نے ڈرایا ہوا ہے کہ دسمبر میں حکومت کو اُلٹا دیا جائے گا اور مارچ اپریل میں نئے انتخابات ہوں گے۔
مولانا فضل الرحمن تو یہاں تک کہہ چکے کہ انھیں دسمبر تک حکومت جانے کا یقین دلایا گیا! کس کس کی سنیں! … اور میں خود چونکہ رکھ رکھاؤ والا ہوں تواس لیے میرے یاروں کا تعلق سبھی جماعتوں سے ہے۔ ن لیگ والے دوست تو نقلیں اُتارنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بسا اوقات جہاں افواہیں اور قیاس آرائیاں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں اور حقیقت خرافات میں کھو جاتی ہے۔ جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا، وہ بھی ہوجاتا ہے۔
اس لیے اُن دوستوں کو یہاں یہ عرض کر دوں کہ فی الوقت حالات اتنے برے نہیں ہیں کہ دسمبر جیسا مہینہ بھی ملک پر بھاری گزرے۔ میاں نواز شریف بغرض علاج بیرون ملک جا چکے ہیں، مولانا فضل الرحمن کے بیانات پر اب کوئی سنجیدگی سے غور کرنے کو تیار نہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی سے میاں شہباز شریف کا استعفیٰ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب پارلیمنٹ میں معاملات خوش اسلوبی سے چلیں گے اور فوری تبدیلی کی خواہش دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ لہٰذاکوئی احمق ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ سیاسی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آنے والی ہو۔
مہنگائی سے لے کر کشمیر پالیسی تک حکومت دباؤ کاشکار ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت جانے والی ہے۔ عمران خان کی سیاست اب ایک اہم موڑ پر آ گئی ہے۔ ان کے پاس وقت زیادہ نہیں رہا۔ عمران خان سے اب سوال ہو رہے ہیں کہ جو وعدے انھوں نے کیے تھے، ان پر کس حد تک پورے اترے؟ صرف جذباتی نعروں اور دھواں دھار تقریروں سے بات نہیں نبھ سکتی۔ بے وقوف نہیں کہ صرف لفظوں سے بہل جائیں۔ لیکن ابھی امتحان اور بھی ہیں اور دیکھتے ہیں ان امتحانات میں حکومت کتنے مارکس حاصل کرتے ہیں۔ بقول شاعر
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پاراُترا تو میں نے دیکھا
بہرکیف سیاسی حکمت اور منطق تو یہ کہتی ہے کہ چیزوں کودوبارہ لائن اپ کیاجائے، بعض چیزیں Re-Setکی جائیں، کم ازکم پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو توفعال کیا جائے تاکہ عوام سکھ کاسانس لے سکیں۔ ٹیم اچھی بنائیں، کیوں کہ ان پر یہ سب سے بڑا الزام ہے کہ انھوں نے ٹیم کے انتخاب میں انتہائی بے احتیاطی سے کام لیا۔ اہم عہدوں پر بہترین لوگ نہیں لگائے گئے۔ انھوں نے نااہل، بدنام، متنازع دوستوں کو عہدے دیے۔
دہری شہریت کے حامل، افراد کو خصوصی معاون بنایا؟میڈیا کے حوالے سے بعض نہایت متنازع شخصیات کو اہم ذمے داری دی گئی۔ شیخ رشید جیسے بے لگام وزرا کو بھی ڈسپلن میں نہیں رکھا۔ سب سے بڑھ کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے عثمان بزدار اور کے پی کے میں محمود خان کو لگایا۔ عمران خان کے سوا پورے صوبے میں شائد ہی دو چار لوگ ہوں گے جو بزدار صاحب کو وزیراعلیٰ بنانے کا دفاع کر سکیں۔
سوا سال سے خان صاحب مگر اس پر اڑے ہوئے ہیں۔ نظام میں تبدیلی ان کا اہم ترین نعرہ تھا۔ اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ پنجاب میں پولیس گردی اہم ترین ایشو ہے۔ اس پر کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔ اصلاحات کے نام پر محکمہ صحت، پنجاب، کے پی کے میں فساد، انتشار برپا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے کچھ غیر معمولی نہیں کیا جا رہا۔ سی ایس ایس کے نظام ہی کو بدل دیتے۔ دیگر شعبوں میں بھی اصلاحات نام کی نہیں۔
پنجاب کی وزارت کے حوالے سے میں بارہا مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ابھی بھی وقت ہے، چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب سونپ دیا جائے، ایسا کرنے سے اُن کا آدھا کام تقسیم ہو جائے گا اورنتیجہ بھی بہترین نکلے گا۔ دنیا کے بہترین قائدین نے بہترین ٹیموں کا انتخاب کیا اور نام کمایا، دنیا کے بڑے بڑے سی ای اوز ریٹائر ہو رہے ہیں تاکہ نئے لوگوں کو موقع دیا جائے جیسے بل گیٹس، جیف بیزوس، مارک زکربرگ، سندرپچائے، لکشمی متل، ٹم کک، جیک ڈورسے اور مائیکل ڈیل وغیرہ۔ یہ اگر کامیاب ہیں تو ان کے وہ ہزاروں امپلائی ان کی کامیابی کاثبوت ہیں جو انھوں نے تیار کر رکھے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کو اب اپنے مخالفین پر برسنے کے بجائے اپنے لیے نیا ایجنڈا سیٹ کرنا چاہیے، نواز شریف، زرداری وغیرہ کو اداروں کی صوابدید پرچھوڑ دیں، کیوں کہ لگ ایسے رہا ہے جیسے1988ء میں بینظیر کی نواز شریف کے خلاف زوردارمخالفت نے انھیں لیڈر بنا دیاتھا، عمران خان کچھ کر دکھائے، تب ہی انھیں اگلی بار ووٹ ملیں گے۔ ان کے پاس وقت کم ہے۔
ان سب کے ساتھ کھیلوں پر بھی توجہ دیں کیوں کہ عوام اُن سے زیادہ اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک روایت کے مطابق ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ہو رہا تھا تو ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر پرانی اور باریک وردی میں پہرہ دے رہا تھا۔
بادشاہ نے اُس کے قریب اپنی سواری کو رکوایا اور اُس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا: "سردی نہیں لگ رہی؟" دربان نے جواب دیا: "بہت لگتی ہے حضور۔ مگر کیا کروں، گرم وردی ہے نہیں میرے پاس، اِس لیے برداشت کرنا پڑتا ہے۔" بادشاہ نے کہا "میں ابھی محل کے اندر جا کر اپنا ہی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ہوں تمہیں۔" دربان نے خوش ہو کر بادشاہ کو فرشی سلام کہے اور بہت تشکّر کا اظہار کیا، لیکن بادشاہ جیسے ہی گرم محل میں داخل ہوا، دربان کے ساتھ کیا ہوا وعدہ بھول گیا۔ صبح دروازے پر اْس بوڑھے دربان کی اکڑی ہوئی لاش ملی اور قریب ہی مٹّی پر اُس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی: "بادشاہ سلامت، میں کئی سالوں سے سردیوں میں اِسی نازک وردی میں دربانی کر رہا تھا، مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی۔"
یہی حال اس وقت پی ٹی آئی حکومت کا ہے جس نے عوام کو زیادہ اُمیدیں دلا دی تھیں تبھی مسائل بھی زیادہ ہو رہے ہیں۔ پہلے درجنوں ڈیپارٹمنٹ میں کرکٹ ہوتی تھی، سارا سال ان کو تنخواہیں ملتی تھیں اور صوبائی، مرکزی سطح پر الگ کرکٹ کا نظام تھا۔ اب ڈیپارٹمنٹل سطح پر تمام کرکٹ کو ختم کرکے صرف صوبائی سطح پر نیا ڈھانچہ متعارف کرایا گیا جس سے کر کٹ بھی خوب متاثر ہو ئی ہے۔ قومی کھیل ہاکی پہلے ہی خودکشی کرنا چاہ رہا ہے، کھلاڑیوں میں بہت بے چینی پیدا ہو چکی ہے، ہم اولمپکس سے باہر ہوچکے ہیں لہٰذا آخری بات یہ کہ جب مسائل زیادہ ہو جائیں تو سیانی بات ہے کہ لسٹ بنا لیں اور ایک ایک کرکے حل کرلیں حکومت کو اس وقت اسی خاص نسخے کی ضرورت ہے!!!