عوام خوش تھے کہ اب ریکوری ہونے والی ہے، کرپٹ افراد سے ایک ایک پائی وصول کی جائے گی۔ حکومت نے بہت سوں پر ہاتھ ڈالا، نیب کو تمام اختیارات دیے، بہت سوں کو پکڑا، عدالتوں سے ریمانڈ لیے مگر ریکوری "صفر"۔ آف شور کمپنیوں سے بات نکلی اور بے نامی اکاؤنٹس تک آگئی، نیلم جہلم سے بات نکلی اورنج ٹرین تک آگئی، ساری کی ساری کرپشن عوام کے سامنے مگر! پیسہ وصول کرنا تو دور کی بات ابھی تک مقدموں کے صحیح چالان ہی پیش نہ کیے جا سکے۔
نوازشریف، زرداری، مریم نواز، فریال تالپور، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، سلمان رفیق، مفتاح اسماعیل سمیت درجنوں سیاستدان و بیوروکریٹس حراست میں مگر عوام کو کیا ملا؟ کیا کچھ ریکور ہوا؟ نہیں نا! اسحاق ڈار، حسن، حسین کو واپس لانا تھا، ابھی تک باتیں ہی باتیں، شہباز شریف سے کرپشن کا حساب لینا تھا، انھیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا کر کہہ دیا گیا، چھوڑو اپنے گھپلے، ہمارا آڈٹ کرو۔ نواز، زرداری سے لٹی دولت نکلوانا تھی، انھیں غالب، اقبال کے دیوان پکڑا کر جیلوں میں من چاہی سہولتیں دے کر کہہ دیا، اب یہاں آرام سے پارٹی صدارتیں کرو، مزے مزے کے کھانے کھاؤاور موجیںمارو۔ اسی طرح ڈاکٹر عاصموں، شرجیل میمنوں، انور مجیدوں، سندھ اسمبلی کے اسپیکروں، نوابزادوں اور سیاستدانوں کا احتساب ہونا تھا۔
کچھ نہ ہوسکا۔ کیا حکومت یہ سب کرنا نہیں چاہتی؟ نہیں! ایسا نہیں ہے! بلکہ بادی النظر میں یہ کھرب پتی مافیا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ آپ چاہ کر بھی ان کا احتساب نہیں کر سکتے۔ یہ مافیا ایسی ایسی چالیں چلتا ہے کہ آپ موجودہ سسٹم کے تحت ان کابال بھی بھیگا نہیں کر سکتے۔ اب سوال یہ ہے کہ موجودہ سسٹم کیا ہے؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ کیا یہ سسٹم ہمیں پاکستان بننے کے ساتھ ہی دے دیا گیا تھا یا بعد میں آنے والوں نے اس کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم 1977کے بعد بتدریج کرپٹ ہوتے گئے، اور آج ہم دنیا کی کرپٹ ترین قوموں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ ایک چپڑاسی سے لے کر افسر تک سب کی اپنی قیمتیں ہیں۔
ہماری آنکھوں کے سامنے اداروں کی تباہی کی بنیادیں رکھی گئیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے جس سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی وہ دور مکمل طور پر "چمک اور مک مکا" کا دور تھا۔ اسی دور میں یہ تاثر پختہ ہوا اور رواج فروغ پایا کہ ہرشخص کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے۔ وہ بھلے کسی بھی قد کاٹھ کا مالک اور کسی بھی منصب پر فائز ہو۔ کوئی اصولوں پر سودے بازی پر آمادہ نہیں ہوا تو اسے "بے اصولی" پر راضی کر لیا گیا۔
ہارس ٹریڈنگ سے لے کر بیوروکریسی سمیت دیگر اہم اداروں میں منظورِ نظر اور بہترین سہولت کاروں کی ایسی فوج تیار کی گئی جس نے ریاست کے قانون سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں تک کو بھی ڈھیر کر کے رکھ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں، ارکانِ اسمبلی کو بھاری بھرکم فنڈز دیے گئے۔ مالِ مفت دل بے رحم کے مصداق سرکاری وسائل اور ملکی دولت کو کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک سبھی پر بھرپور استعمال کیا گیا، پہلی بارملک کے تمام بڑے اداروں میں اس قدر سیاسی بھرتیاں کر کے لوگوں کو نواز ا گیا کہ منافع کماتے ہوئے اداروں کا بھرکس نکل گیا۔
اُس وقت کی کنگز پارٹی مسلم لیگ نے غیر جماعتی اراکین کو ساتھ ملانے کے لیے پجارو کلچر فروغ دیا، برادری ازم فروغ پائی، سیاستدانوں کو نوکریوں کے کوٹے دیے گئے، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایم کیوایم بنائی گئی، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ قائم کیے گئے، جب کہ سیاستدانوں نے ذاتی کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دینے کے لیے سرکاری اداروں کو تابع کر کے ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کو اپنے اوپر حلال قرار دیا۔
یہ وہ دور تھا جب ادارے سرکار کی سرپرستی میں کرپشن کی بنیادوں پر کھڑے ہو رہے تھے۔ پھر اگلے ادوار میں دوسری حکومتوں نے بھی ایسا ہی کیا اور ہاتھ رواں کرنے کے لیے اداروں کو اپنے ذاتی مفادات میں اس قدر استعمال کیا کہ کرپشن عام عوام کی نس نس میں جا بسی اور یہ سیاستدان لکھ پتی سے کروڑ پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی مافیا بن گئے۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی سے لے کر سرکاری افسران تک، چہیتوں اور لاڈلوں سے لے کر سہولت کاروں تک، مقتدر اداروں سے تعلق رکھنے والوں سے لے کر قانون اور انصاف کے علم برداروں تک، نہ جانے کتنے پردہ نشینوں نے اس "سسٹم " پر ہاتھ صاف کیے۔ بقول مرزا غالب
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
پاکستان کے کرپٹ نظام میں انصاف لینا مشکل ہوگیا، ہمارا نظام عدل دنیا کے 180مہذب ملکوں میں 163ویں نمبر پرہے یعنی ہم محض 17ملکوں سے بہتر ہیں اور شاید اکا دکا ملکوں کو چھوڑ کر ان تمام ممالک کا تعلق افریقہ کے خطوں سے ہے جہاں خانہ جنگی ہے۔ یعنی ہم انصاف فراہم کرنے والوں میں سب سے پیچھے ہیں۔ اس میں پولیس کا تفتیشی نظام، سرکاری وکیل اور گواہیوں میں گھمبیرتاؤں جیسی ذلالت موجود ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ سرکاری وکیل جس کی سوا لاکھ روپے تنخواہ ہے، اُسے ایک بڑی آفر کی جاتی ہے جو کروڑوں روپے میں ہوتی ہے، جب وہ کہتا ہے کہ میں تو حکومت کا وکیل ہوں، میں کیا کرسکتا ہوں، اس پر اُسے کہا جاتا ہے کہ فی الوقت آپ کو جتنا کہا جا رہا ہے اُتنا ہی کریں، ایک تو اُس سے مجوزہ کیس کو Delayکروایا جاتاہے، دوسرا وہ پوری تیاری کے ساتھ کورٹ میں پیش نہیں ہوتا، تیسرا مخالف وکیل کے سوال کا صحیح انداز میں جواب نہیں دیتا۔ لہٰذانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیس ہی ختم ہوجاتا ہے۔
لہٰذااگر اس کرپٹ مافیا کو سزا دینی ہے تو ان کے لیے الگ کورٹس بنائی جائیں بالکل اسی طرح جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الگ کورٹس بنائی گئی ہیں جہاں کیس ٹو کیس فیصلے کیے جاتے ہیں ان کورٹس میں بھی کرپشن کی مالیت کے حساب سے فیصلے کیے جائیں۔ دس کروڑ، پچاس کروڑ، ایک ارب، دس ارب اور سو ارب روپے کے لیے الگ الگ اسپیشل کورٹس بنائی جائیں، کیونکہ اس کرپٹ اور کھرب پتی مافیا کو اسپیشل کورٹس ہی سزا دے سکتی ہیں۔ یہ کام عام عدالتیں نہیں کر سکتیں!الغرض ملک کی عمارت کو گرانے کے لیے کسی ایک اکیلے ہاتھ کا قصور نہیں بلکہ اس کے لیے سبھی کا قصور ہے اور اسے ٹھیک بھی سبھی نے کرنا ہے، تبھی یہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ (جاری ہے)