آج کل ملکی حالات دیکھ کر منیر نیازی مرحوم یاد آئے۔
منیراس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آئے ایک ہفتہ گزر گیا، بحث ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، اوپر سے فیصلے کے پیرا چھیاسٹھ میں دی گئی "ذاتی" رائے نے معاملے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اس فیصلے کو آئین کی "فتح" قرار دیتے ہوئے رخصت ہوچکے ہیں جب کہ نئے چیف جسٹس، جسٹس گلزار فی الوقت خاموش دکھائی دے رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں حکومت اس حوالے سے کیا اقدامات اُٹھاتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر حکومت فکر مند ضرور ہے کہ اناؤں کے تصادم میں کہیں وہ نہ گر جائے۔
خیر یہ تو مفروضے ہیں حقیقت تو نہیں مگریہ بات سچ ضرور ہے کہ حالیہ فیصلے پر "سرد جنگ" کا فی الفور خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اور میری ذاتی رائے میں ایک شخص کو صرف اس لیے نہیں چھوڑا جانا چاہیے کہ اُس کی بہت سی خدمات ہیں! جو کام غیر قانونی اور غیرآئینی ہے، وہ غیرقانونی اور غیرآئینی ہی رہے گا، لہٰذا مشرف کیس کے فیصلے کے حق میں واحد دلیل یہی ہے کہ اگر بھٹو کو سزائے موت دی جا سکتی ہے، میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نااہل ہو سکتے ہیں تو پرویز مشرف بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں۔
اس شورو غل میں جو بات سب سے زیادہ مسائل کا باعث بن رہی ہے، وہ فیصلے میں بیانی کی گئی ایک جج صاحب کی ذاتی" رائے" کی کہ مشرف کو تین دن کے لیے ڈی چوک پر لٹکا دیا جائے اور اگر وہ مربھی جائے تو بھی ان کے لیے سزا برقرار رہے گی۔
مجھے علم نہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں لکھا، یہ الفاظ اُن کے جذبات تھے یا کچھ اور اس حوالے سے تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں مگر تجربے کی بنیاد پر بات کروں تو جج جب بھی اپنے فیصلے میں جذبات شامل کریں گے تو وہ فیصلہ متنازعہ ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں صرف جنرل ضیاء کے دور کے علاوہ (جب پپو کے قاتلوں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی) کسی دور میں بھی "لٹکانے" والے عمل کو سپورٹ نہیں کیا گیا، ہاں منصفین نے جب اس قسم کے بڑے کیسز کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں تو وہ دنیا کے مختلف ممالک کے کیسز کو بھی اسٹڈی کیا کرتے ہیں جیسے برطانوی ڈکٹیٹر جنرل اولیور کرامویل کا ذکر کیا گیا ہے۔ دنیا میں بہت سے ڈکٹیٹروں کو سزائیں دی گئی ہیں۔
یہ سب واقعات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کسی نے زبردستی اقتدار لیا اُسے سزا ضرور ملی مگر 80فیصد سزائیں عمر قید میں بدل دی گئیں، اور حیرت انگیز طور پر ان ممالک میں جہاں کرپشن، پسند نا پسند، اقربا پروری زیادہ اور میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں وہیں موت کی سزا کا تناسب بھی نسبتاًزیادہ ہے، جب کہ جہاں ایجوکیشن ریٹ زیادہ، اور تہذیب یافتہ معاشرہ ہے وہاں سزا ئے موت سرے سے ہی ختم کردی گئی ہے۔ اور ویسے بھی حیرت ہے کہ جو ملک اپنے شہریوں کو زیادہ حقوق دیتا ہے وہاں پھانسی بھی نہیں ہے، اور جو ملک غریب ہے، نظام تعلیم ٹھیک نہیں ہے، حکمران کرپٹ ہیں وہ اپنے مخالفین کو لٹکانے جیسے فیصلے کرتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پورے یورپ سمیت 106سے زائد ممالک میں موت کی سزا ختم کر دی گئی ہے جب کہ 53 ممالک میں جن میں افغانستان، ہندوستان، نائیجیریا، امریکا، جاپان، تائیوان، کویت، زمبابوے، لیبیا، تھائی لینڈ، گوانا، یوگانڈا، بنگلہ دیش، عراق، انڈونیشیا، بوسٹوانا، بہاماس، کیوبا، بیلاروس، یمن، ایران، عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ویت نام، شام، مصر، چین، سوڈان، ڈی آر سی، اتھوپیا، جنوبی سوڈان، کمروس، بارباڈوس، چاڈ(افریقا)، پاکستان، عمان، سنگاپور، سینٹ لیوشیا، بیلا روس، بحرین، شمالی کوریا، گنی، فلسطین، لسوتھو، بابوڑا، بیلائج، ڈومینکا، جمیکا، جارڈن وغیرہ شامل ہیں۔
جب کہ بقیہ 40ملکوں میں سزا تو موجود ہے مگر کسی کوپھانسی دینے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ چین، ویت نام، انڈونیشیا، تائیوان اورامریکا میں سزائے موت پانے والے مجرم کو زہر کا انجکشن اور فائرنگ کر کے مارا جاتا ہے، سعودی عرب میں ریپ، منشیات یا دیگر سنگین جرائم کرنے والے مجرم کا سرقلم کیا جاتا ہے۔ جب کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ایران، عراق اور جاپان میں پھانسی کے ذریعے مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ جاپان کے علاوہ مذکورہ بالا تمام ممالک کا لٹریسی ریٹ 50فیصد سے کم ہے، اور حیرت انگیز طور پر موت کی سزا بھی وہیں بحال ہے۔
اور ہاں وطن عزیز میں سزائے موت کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ روزانہ ہمارے نظام عدلیہ پر بہت سے سوال اٹھتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ترازو کے سامنے بیٹھی ہوئی قانونی دیوی کی آنکھوں پر تو پٹی باندھ دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ قانون کسی کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کر تا بلکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں بہت سے فیصلے ناانصافی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہاں ججز کی تقرری کے نظام کے حوالے سے بھی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسے بھی سی ایس ایس کی طرح ہونا چاہیے، سول جج بھرتی ہو، پھر وہی جج سپریم کورٹ میں آئے اور چیف جسٹس بنے۔
بہرکیف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں جب ملک پہلے ہی دوراہے پر کھڑا ہے، میری ذاتی رائے میں ایسی صورت میں موت کی سزا کو یکسر ختم کردینا چاہیے۔ 1973 کے آئین کے مطابق عمر قید 14سال تھی، بعد ازاں 1977 میں عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے بھٹو نے سزائے موت ختم کرنے کے لیے سزائے موت کو ختم کرنے کے لیے عمر قید کو25سال کرنے کی تجویز دی تھی، بعد ازاں اُن کی حکومت ختم کردی گئی جس کی وجہ سے عمر قید کی سزا 25سال توہوگئی مگر موت کی سزا ختم نہ ہوسکی۔
بعد میں آنے والوں نے اس جانب توجہ نہ دی حالانکہ جس ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے، 80فیصد آبادی کرپشن میں ملوث ہے، ادارے ٹھیک کام نہیں کر رہے، پسند ناپسند کا بہت زیادہ چکر ہے، ملک میں غریب کے لیے قانون اور، اور امیر کے لیے کوئی اور قانون ہے وہاں نئے لاشیں 3دن تک لٹکانے کے بجائے از سر نو قانون سازی کی ضرورت ہے!