کورونا نے نظام زندگی یکسر بدل دیا ہے، بہت سی حکومتوں اور افراد نے زندگی گزارنے کے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔ الغرض کچھ نے سبق سیکھ لیا ہے، کچھ سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور کچھ اب بھی اختیارات، منافقت، ناجائز منافع خوری اور ظلم و بربربیت کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہی طبقہ "مافیا" کہلاتا ہے، اس مافیا کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی لت لگ گئی ہے، اور یہ لت شاید قبر میں جا کر ہی ختم ہو!بقول شاعر
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
پٹرول سستا ہوا، تو شارٹ کر دیاگیا، پھر ہفتے کو یکمشت25روپے مہنگا ہوا تو ٹینکر کے ٹینکر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ حکومت نے ادویات سستی کرنے کے لیے کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے تو ادویات مارکیٹ سے غائب، پھر جب قیمتیں بڑھا دی گئیں تو انھی میڈیکل اسٹورز پر ادویات کے ڈھیر لگے نظر آئے۔ چینی مہنگی ہونے کا نوٹس لیا گیا، مگر زائد قیمت چینی پر ہی اکتفا کرکے چینی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، آٹا وگندم مہنگی ہوئی، نتیجے میں مہنگی قیمتوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا، پھر حکومت نے چکن کے ریٹ فکس کرنے کی کوشش کی، تو 200والا چکن 300میں سیل ہونے لگا۔
یہی حالات پیپر، بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ہوئے۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیجیے، آپ کو ہر شخص اس حوالے سے ڈسکس کرتا نظر آئے گا کہ کیا پاکستان میں "مافیا" کے پنجے اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ کوئی حکومت بھی ان سے نمٹنے سے قاصر ہے۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو آج ہی سب اچھا ہو جائے گا۔
خان صاحب! یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب آپ نے شوگر مافیا، ادویات مافیا، بلڈر مافیا، پٹرولیم مافیا، گندم مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور دیگر مافیا ز کو آج تک سزا نہیں دی تو کوئی کیسے سمجھے کہ آپ ان مافیاز کو "نتھ " ڈالنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بات تو اُس وقت سمجھ آئے کہ چند ایک بڑے لٹیروں سے آپ نے اربوں روپے ریکور کر لیے ہیں جب کہ چند ایک کے خلاف آپ ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ جیسے مافیا چاہتا ہے اس ملک میں ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
میں نے ابھی پچھلے دنوں پٹرول بحران پر کالم لکھا تھا، اُس میں میں نے لکھا تھا کہ اگر حکومت پٹرول بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا، خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، لہٰذامسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام مہنگا تیل نہیں خریدیں گے، بلکہ مسئلہ یہ ہے اگر حکومت واقعی دباؤ میں آکر ایسے فیصلے مسلط کرے گی تو عوامی ردعمل آنا فطری بات ہے۔ اور پھر یہ سوال اُٹھنا کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ یقینی ہوگا۔
میرے خیال میں حکومت قائم کرلینا اصل کمال نہیں بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پھر ان کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش بھی کرتی ہے کہ یہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں۔
سوال اب یہ ہے کہ کیا ان مافیاز اور حکومت میں سے کون جیت رہا ہے اور کون ہا ررہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ فی الوقت بجلی کی بے وقت کی لوڈ شیڈنگ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلز، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسیں، اسپتالوں کے مہنگے بلز، تعلیمی اداروں کی فیسیں، صاف پینے کے پانی کی سپلائی، سڑک کی صفائی اور استرکاری، امن وامان کے قیام، الغرض تمام سرکاری ادارے جو سرکار کے نام پر عوام سے رشوت لے کر کام کرتے ہیں سبھی سانپ کی طرح پھن پھیلائے عوام کو ڈسنے کے لیے تیار ہیں۔ لگ تو یوں رہا ہے کہ جیسے حکومت توآئی لیکن آتے ہی سب بھول گئی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات تواُٹھائے گئے مگر ریکور کچھ نہ ہوا۔ اُلٹا اربوں روپے سیکیورٹی اور پیشیوں کی مد میں خرچ کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اپنے مقاصد سے ہٹ گئی۔ شاعر نے کیا خوب ان حالات کی تشریح کی ہے کہ
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
بہرکیف جب تک حکومت کی رٹ بحال نہیں ہوتی آپ کچھ بھی کرنے سے قاصررہیں گے، حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت، گیس، آٹا اور دیگر لوازمات میں سبسڈی دے کر بھی نان بائیوں کو کنٹرول کرنے سے قاصر رہی۔ انھوں نے جب چاہا زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کردیں۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتے رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس حوالے سے ادارے موجود نہیں ہیں اس وقت سی سی پی یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان اس معاملہ میں غیر فعال ہو گیا۔ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لیے آئے دن مختلف نام منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور جو اسٹیٹ بینک کے بعد دوسرے نمبر پر معاشی کنٹرول کا ادارہ بنتا ہے۔ افسوس کہ کوئی کچھ نہیں کرتا۔
ہمیں یاد ہے کہ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اُن کی جانب سے یہ اکثر سننے میں آتا تھا کہ یہ سب مافیاز ہیں جن کے خلاف میں حکومت میں آنے کے بعد کارروائی کروں گا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے ماضی کے بیانیے سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پر آٹا، چینی اور پٹرول بحران کے بعد یہ الزام لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ان کی اپنی کابینہ میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، جس پر انھوں نے مافیا کے لفظ کو تھوڑا فینسی کرتے ہوئے ان کے لیے "ایلیٹ کارٹل " کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی اس سے مراد وہ کاروباری حضرات ہیں جو اپنا اکٹھ کر کے ملک میں کسی چیز کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔ منافع خور وں کا چہرہ تب عیاں ہوتا ہے جب حکومت کسی بھی چیز کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے اور فورا بعد اس چیز کی قلت پیدا کردی جاتی ہے۔
الغرض کہنا تو نہیں چاہیے لیکن آج ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ عمران خان صاحب آپ اس عوام کے لیے آخری اُمید ہیں، اگر اس بار اُمید ٹوٹتی ہے تو یقین مانیں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ہر بحران کے بعد کہا جاتا ہے کہ مافیا جیت گیا، کپتان ہار گیا۔ یہ بات عمران خان کی نااہلی کو بھی واضح کرتی ہے۔
لہٰذاان تمام بحرانوں سے چھٹکارہ پانے کا صرف یہی حل ہے کہ آپ کسی ایک بحران کو پکڑ لیں، اُسے حل کریں، عوام کے سامنے نمونہ بنا کر پیش کریں، اُس کے بعد دوسرا بحران پکڑیں اُسے حل کریں، پھر حل ہونے والے بحرانوں کے آگے بند باندھ دیں۔ اسی طرح تمام مسائل کو حل کرنے میں عوام بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور اس طرح یقینا آپ جیت بھی جائیں گے!