آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر اس وقت پورے ملک میں "میلے" کا سماں ہے، ہر چوراہے پر بھارت کے خلاف مذمتی بینر لگے ہیں، یقینا کئی سیمینارز ہوں گے، جلسے جلوسوں کی بھرمار ہوگی۔
یہ درست ہے کہ یوم یک جہتی کشمیر منانے سے کشمیریوں کی آواز عالمی برادری تک پہنچتی ہے اور اس سے مسئلہ کشمیر کے بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے میں مدد ملتی ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں اور حکمرانوں کی طرف سے اتنا ہی کردینے سے کشمیر کاز کو کوئی تقویت پہنچ سکتی۔ نہیں اس کے لیے ہمارے حکمرانوں کو کچھ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اب عملی اقدامات جنگ کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں لیکن کبھی کوئی ذی شعور شخص اس آپشن کو ذہن میں رکھنا تو دور کی بات اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
دوسری آپشن بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کے خاتمے کے ساتھ تجارتی تعلقات کا خاتمہ ہے، لیکن اس سے بھارت کو شاید فرق نہ پڑے کیوں کہ وہ ایک بڑی مارکیٹ ہے، اس کے پاس بہت سی آپشنز ہیں۔ تیسری آپشن سفارتی محاذ پر جنگ ہے جسے اگر صحیح معنوں میں لڑا جائے تو میرے خیال میں سب سے کامیاب جنگ ہوگی، ہمیں کرنا یہ ہو گا کہ ہم اپنے ملک میں شور ڈالنے کے بجائے اُن ممالک میں جا کر شور مچائیں جو ہمارے اتحادی ہیں، جو اس مسئلے کو حل کرا سکتے ہیں، یا حل کرانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر اُن کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہے۔ کیا سعودی عرب کو اگر ہم دباؤ میں لائیں اور اس سے بھارت کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو بدلنے کے لیے کہیں تو کیا بھارت اپنی شرانگزیوں سے باز نہیں آجائے گا۔
بھارت ایران میں اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کر رہا ہے، چابہار بندرگاہ پر 25ارب ڈالر لگارہا ہے، اگر ایران کہہ دے کہ بھارت کشمیریوں کو اُن کے حقوق دے اور ظلم بند کرے ورنہ وہ چاہ بہار میں کام بند کردے تو کیا ہم ایران سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتے کہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں پر ظلم ہو رہا ہے، اس لیے بھارت کے ساتھ تعلقات ختم کیے جائیں وغیرہ۔ ہم امریکا سے اس دو ٹوک بات کر سکتے ہیں کہ وہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے میں قائل کر ے تاکہ یہ مسئلہ باہمی مذاکرات اور کسی بڑی طاقت کی ثالثی کے ساتھ حل ہو سکے۔
پاکستان اگر ترکی اور ملائیشیا جیسے ممالک کو ہی قائل کرلے تو یہ ممالک پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم اگر طیب اردگان اور مہاتیر محمد کو اس حوالے سے اعتماد میں لیں کہ کشمیر پر بھارتی تسلط کو ختم کروانے کے لیے اپنی 11(ترکی کے ساتھ )اور 14ارب (ملائیشیاکے ساتھ ) 14ارب ڈالر کے لین دین کو ختم کرنے کی تنبیہ کر دیں تو یقینا یہ کشمیریوں کے لیے اچھا ہوگا۔
ہم یو اے ای سے کہہ سکتے ہیں اُس کے ساتھ بھارت کے 100ارب ڈالر کے کاروباری مراسم ہیں، ہم یو اے ای کو اس حوالے سے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ الغرض آخر ہم کب تک صرف یوم یک جہتی ہی مناتے رہیں گے؟ کیا اب ہمیں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے بعد مزید ایک قدم آگے نہیں بڑھانا چاہیے؟ البتہ میں چین، روس اور امریکا کے حوالے سے زیادہ فورس اس لیے نہیں کرتا کیوں کہ یہ طاقتیں محض اپنے مفادات کے لیے چھوٹے ممالک کے ساتھ جڑی رہتی ہیں اس لیے ان کو کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کے حوالے سے کوئی Concenنہیں ہوتا۔
اگر ہمیں کشمیر حقیقت میں چاہیے تو اپنی حکمت عملی کو یکسر بدلنا ہوگا، جس طرح دنیا میں سفارتی جنگیں جیتی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی کشمیر کی جنگ جیتنا ہوگی۔ ہمیں سابقہ حکومتوں کی طرح منافقت کے دور سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں گزشتہ 70سالوں سے یہ ڈرامہ دیکھتے رہے ہیں کہ بھارت کشمیر پر مذاکرات بھی کرتا ہے، اور اس کو اپنا اٹوٹ انگ بھی قرار دیتا ہے تو کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کو منافقت کے کس درجے میں رکھا جائے؟ مذاکرات میں جو پاکستانی حکومتیں حصہ لیتی رہی ہیں، ان کی عقل و دانش پر ماتم کیا جائے یا اسے ان کی ڈرامہ کا شاخسانہ قرار دیا جائے کہ بھارت تو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے پھر بھی یہ اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جاتے ہیں۔
کیا دونوں طرف سے منافقت نہیں ہوتی رہی؟ ہماری طرف سے کچھ زیادہ ہی ہوتی رہی۔ حالانکہ عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے، ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ویر سنگھوی، ٹائمز آف انڈیا کے کنسلٹنٹ ایڈیٹر سوامی ناتھن، کالم نگار جگ سوریا جیسی شخصیات اپنے مضامین میں بھارتی حکومت سے کشمیریوں کو آزادی دینے کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں حکمرانوں کی سطح پر آزادی کشمیر کے لیے کوئی کوشش اور عزم نظر نہیں آتا، محض بیان بازی کی جاتی ہے، جس سے مسئلہ کشمیر قیامت تک حل نہیں ہوسکتا۔