آج کل نئے مالی سال کے بجٹ میں ردو بدل عروج پر ہے، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بھی جاری ہیں، اس دفعہ ایک بار پھر 3ہزار ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔
ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ ٹیکس کولیکشن اہداف اور برآمدات میں ریکارڈ کمی کے باعث خسارہ اس سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ ملکی گروتھ مثبت سے منفی کی طرف جا چکی ہے، ایسے میں وفاقی سطح کے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی اذیت بھی جھیلنی پڑ رہی ہے، جب کہ اس کے برعکس کوئی ادارہ اپنے بجٹ کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، صوبے بھی اپنا پورا حصہ وصول کرنے کے درپے ہیں، ترقیاتی بجٹ میں معمولی سا کٹ لگا ہے، جب کہ حکومت کی کفایت شعاری مہم بھی ساقط ہو چکی ہے۔
وزیراعظم ہائوس کی بھینسیں بیچنے سے شروع ہونے والی سادگی مہم بھی محض دکھاوا ثابت ہوئی ہے کیوں کہ وزیراعظم ہائوس کے بجٹ میں بھی پہلے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے ممبران صوبائی اسمبلی کی سالانہ تنخواہ 11ارب 13کروڑ، سندھ اسمبلی کے ممبران کی سالانہ تنخواہ ساڑھے تین ارب روپے، خیبر پختونخواہ کے ممبران اسمبلی کی سالانہ تنخواہ 2ارب60کروڑ روپے، بلوچستان کے 65اراکین کی سالانہ تنخواہ 10کروڑ روپے، جب کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی سالانہ تنخواہ 12ارب 30کروڑ روپے اور 104سینیٹرز کی سالانہ تنخواہ 50کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔ ابھی اس میں پانچوں اسمبلیوں کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم، صدر اور دیگر اسٹاف کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ جتنی ان ممبران اسمبلیوں کی تنخواہیں ہیں، اس سے دوگنا ان کے لیے مراعات متعین کی گئی ہیں۔ یعنی اگرصرف تنخواہیں 35 سے 40ارب کے قریب ہیں تو ہاؤس رینٹ، گاڑی، گھر اور ٹکٹ، بیرون ملک دورے اور رہائش وغیرہ کی مد میں یہ خرچ سالانہ 85ارب روپے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے 90فیصد ممبران اسمبلی ایسے ہیں جن کی اپنی ملیں، کارخانے اور بیرون ملک کاروبار ہیں، اور جو باقی 10فیصد ممبران بچتے ہیں وہ یاتو جاگیردار ہیں یا وہ "کاروبار" کرنے کے لیے مشاورت کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
میں نے ان یار لوگوں سے کئی بار احتجاج بھی کیا کہ جب وہ مہینہ بھر اپنے ذاتی کاروبار سے لاکھوں روپے کما رہے ہیں تو کیا ضرورت ہے انھیں کروڑوں روپے تنخواہ اور سرکاری مراعات لینے کی۔ اور جب انھوں نے اپنے آپ کو قوم کی خدمت کے لیے وقف ہی کردیا ہے تو کس بات کی مراعات، کونسا ٹی اے ڈی اے، اور کونسی سالانہ 25ائیر ٹکٹوں کے مساوی رقوم۔ خیر وہ اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ جواب دینے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں۔
حالانکہ پاکستان کے پارلیمنٹیرینز کا دیگر ممالک کے پارلیمنٹیرینز سے موازنہ بغور پڑھیں، آنکھیں کھل جائیں گی، مضبوط اقتصادی بنیادوں پر کھڑا ملک بھارت جس کی بندرگاہوں سے روزانہ کروڑوں ڈالر کا سامان عالمی منڈیوں کی طرف اپنا سفر شروع کرتا ہے جس کے دو لاکھ سے زائد صنعتی یونٹس کی بھٹیاں پورا سال گرم رہتی ہیں جس کے بارہ بارہ ایکڑ کے فارم دنیا میں سب سے زیادہ پیداوار دیتے ہیں، انڈیا دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے اس کا رکن اسمبلی یعنی لوک سبھا کا ممبر 6 ستمبر 2007ء تک پندرہ ہزار روپے تنخواہ لیتا رہا۔ لوک سبھا کے ارکان نے پندرہ ہزار سے 30ہزار ماہانہ تنخواہ کرنے کے لیے طویل "یدھ" لڑا۔
لوک سبھا کے ارکان نے جب اپنی تنخواہوں میں اضافے کا سوال اٹھایا تو انھیں جواب ملا۔ جس ملک کے چار کروڑ عوام فٹ پاتھ پر سوتے ہوں۔ جس ملک میں سات صوبوں میں علیحدگی پسندوں سے جنگ جاری ہو۔ جس ملک میں جسم فروشی سب سے بڑی منڈی ہو۔ جس ملک کے پچاس فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہوں۔ جس ملک کا ہنر مند اوسطاً 200 روپے روزانہ کماتا ہو۔ وہاں پر عوامی نمایندوں کی تنخواہ کو یکمشت کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔
لہٰذاان اراکین لوک سبھا کی تنخواہیں 2018 کے بجٹ میں 50ہزارروپے سے زائد نہیں ہیں، جس میں اس کا ہاؤس الاؤنس میڈیکل الاؤنس اور فون بل بھی شامل ہے اور اس فنانس بل کو 2023 تک لاگو کر دیا گیا، لوک سبھا میں ابھی تک ایسے ممبران کی تعداد کم نہیں ہوئی جو رکشوں میں اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچتے ہیں، مانگ کر اخبار پڑھتے ہیں، جوتے بغل میں دبا کر کیچڑ سے گزرتے ہیں۔
جب کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاست دان ایسا نہیں جس کے پاس ذاتی گھر، گاڑی بینک بیلنس نہ ہو۔ یہاں تو اسمبلیوں تک پہنچنے کے لیے 50، 50کروڑ روپے خرچ کرنا معمولی بات ہے۔ کیونکہ پاکستانی پارلیمنٹ ہی وہ سونے کی کان ہے جس میں کروڑوں لگا کے گھسو اور اربوں کما لو۔
آپ ڈنمارک اسمبلی کی ایک مثال دیکھ لیں، وہاں کی ایک سابق خاتون وزیررٹ بریگاڈ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے پیرس گئیں، کانفرنس ختم ہوئی تو ڈنمارک کے ایک اخبار نے رٹ کے سرکاری خرچ پر ہوٹل میں ٹھہرنے کی خبر شایع کر دی، بس خبر چھپنے کی دیر تھی ڈینش عوام سڑکوں پر نکل آئی، رٹ کے خلاف جلوس شروع ہو گئے اس کے پتلے جلنے لگے یہ عوامی ردعمل اتنا شدید تھا کہ ڈنمارک حکومت کو اس کا فوری نوٹس لینا پڑا، رٹ کو چارج شیٹ کر دیا گیا۔
جس کے جواب میں خاتون وزیر نے موقف اختیار کیاکہ کانفرنس ہال ڈینش ایمبیسی سے بہت دور تھا میں بہت علیل تھی میرے لیے دن میں تین مرتبہ ہال تک آنا جانا ممکن نا تھا لہٰذا میں نے مجبوراً کانفرنس ہال کے نزدیک ایک دوسرے درجے کے ہوٹل کا ایک معمولی سا کمرہ لے لیا جس کا کرایہمیں نے سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ اپنے ٹی اے ڈی اے سے ادا کیا۔
رٹ کے موقف میں بڑی جان تھی لیکن اس کے باوجود ڈینش قوم نے اسے معاف کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ رٹ نا صرف مستعفی ہوئی بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے سیاست سے بھی غائب ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ ترکی کی پارلیمان کی مثال لے لیں 70فیصد سے زائد اراکین اپنی تنخواہیں واپس سرکاری خزانوں میں جمع کرواتے ہیں اور اگر کسی غیر ملکی دورے پر جانا مقصود ہوتو یہ ممبران اپنے سفارتخانے میں یا سفیروں کے گھروں میں بطور مہمان ٹھہرتے ہیں۔۔
جب کہ اس کے برعکس یہاں ممبران اسمبلی کی اپنی مراعات تو ایک طرف، نہلے پہ دہلا یہ کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی 50 کمیٹیاں ہیں اور ہر ایک کمیٹی کا ایک چیئرمین ہے ہر چیئرمین کے ذاتی دفتر کی تیاری سے لے کر روز مرہ کے اخراجات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ہر چیئرمین کو گریڈ سترہ کا پرائیویٹ سیکریٹری، گریڈ پندرہ کا ایک سٹینو ایک نائب قاصد 1300 سی سی کی برانڈ نیو گاڑی ایس ٹی ڈی فون، رہائش پر فری فون کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ ان کے ذاتی ملازمین کی تنخواہیں اور دفاتر کے روزمرہ اخراجات بھی اس کے علاوہ ہیں۔
ان کمیٹیوں کا اجلاس جہاں بھی ہو متعلقہ وزارت کے سیکریٹری کا وہاں پہنچنا ضروری ہوتا ہے، تمام ممبرز کی رہائش، انٹرٹینمنٹ اور گاڑیوں کا انتظام کیا جاتا ہے، انھیں اجلاس شروع ہونے سے تین روز پہلے اور تین روز بعد تک کا ٹی اے ڈی اے دیا جاتا ہے، ایک تخمینے کے مطابق ن لیگ کے دور حکومت میں یہ 50کمیٹیاں ساڑھے چار ارب ڈکار چکی تھیں۔