ایک خوابناک منظر۔ "کابینہ کا اجلاس جاری ہے، باریش پگڑیوں والے وزراء، وزیر اعظم مولانا فضل الرحمن کے گرد جمع ہیں اور کسی حساس موضوع پر بات کر رہے ہیں، سول سروسز کا ایک مخصوص گروہ جو ہمیشہ تاک میں رہتا ہے کہ بوقت ضرورت پھلانگ کر اس طرف یا اس طرف ہو جائے، وہ بھی پگڑیاں باندھے "وزیر اعظم" سے ہدایات لے رہا ہے۔ کھابے بھی خوب اُڑائے جا رہے ہیں، پہلی ہدایت ملی کہ بانی پاکستان کے لیے "جناح صاحب" کا لفظ بروئے کار لایا جائے گااور بھی بہت کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے، مثلاًاسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کے لیے تاریخ کی کتابیں ازسرنو لکھی جانے لگیں۔
پاکستان کی جگہ اکثر و بیشتر، برصغیر کا لفظ ڈال دیا گیا۔ ایک قانون یہ بنایا گیا کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو ایم اے یا ایم ایس سی کی ڈگری اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک کہ وہ کسی مدرسہ سے پانچ سال کا ریفریشر کورس نہ کر لیں۔ ایسا ہی بہت کچھ سوچتے سوچتے آنکھ جھپکی توذرا ہوش آیا، سر جھٹکا، اپنے ہی سر کو تھوڑا سا کھجایا، اور پھر آواز آئی کہ کوئی بات نہیں، ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے!کیوں کہ یہاں ہمیشہ انہونی ہی ہوتی آئی ہے، جس نے پاکستان میں دفن ہونے سے انکار کیا اُس کی آل اولاد یہاں حکومت کر چکی ہے اور آج کل اسٹیج پر مولانا کے ہمراہ دکھائی دیتی ہے اور یہاں سب کچھ ہونا اس لیے بھی ممکن ہے کیوں کہ یہاں پی پی پی جیسی لبرل جماعت بھی اقتدار کی خاطر مولانا کا ہاتھ تھامے دکھائی دیتی ہے۔
خیر آج کل اسلام آباد جیسے خاموش شہر کی رونقیں پھر بڑھ چکی ہیں، مولانا صاحب اپنا احتجاجی دھرنا سجائے ہوئے ہیں۔ دیر آئید درست آئید کے مصداق حکومت نے بھی خاصے شغل میلے کے بعد اب مولانا سے سنجیدہ مذاکرات کرنے کا دم بھرلیا ہے۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لیکن بادی النظر میں یہ لڑائی دو بدترین سیاسی مخالفین کی لڑائی لگ رہی ہے جو کئی سال سے ایک دوسرے کے خلاف سرد جنگ لڑتے رہے اور ایک دوسرے کو یہودی ایجنٹ کہتے رہے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک یہ حکومت کو مفلوج کرنے کے منصوبے کے سوا کچھ نہیں ہے کیوں کہ ایک طرف دو کرپٹ جمہوری حکومتوں کے بعد عوامی توقعات، امنگوں اور معاونت کے دوش پر سوار ہو کر برسر اقتدار آنے والی تبدیلی حکومت اور دوسری جانب خراب ہوتی ہوئی معیشت۔
اسی دوران مولانا کا دھرنا ہے جو دباؤ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے، حالانکہ دھرنے والوں کو چاہیے تھا کہ یہ دھرنا بھارت کے خلاف کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے دیتے! یہ حضرات عالم تنہائی میں غور فرمائیں کہ آپ کس راہ پر ہیں اور کس کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ کس وقت پر کیا جارہا ہے؟ تحریک انصاف اور اس کے قائد کے غیر سیاسی اور غیر پارلیمانی سیاسی ابلاغ کی سزا پورے پاکستان، پاکستانیوں اور کشمیریوں کو کیسے دی جا سکتی ہے؟ فرصت ہو تو بھارتی میڈیا دیکھ لیا جائے۔
مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کو کس راہ پر ڈالا جارہا ہے؟ کرپشن سے لتھڑے اور بڑے بڑے وائٹ کالر کرائمز کے مرتکب سیاست دانوں دھرنے کے شرکاء سے خطاب فرما رہے ہیں، جن معتوب سیاسی رہنماؤں نے کنٹینر پر آکر فوٹو سیشن بھگتا یا ہے وہ ان کی مجبوری تھی، وہ اس مارچ سے اپنا فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں۔ پھر بھی مولانا سے گزارش ہے کہ اگر وہ حالات کو محاذ آرائی کی طرف نہ لے کر جائیں۔ کیوں کہ محاذ آرائی کا دائرہ سیاسی جماعتوں سے بہت آگے تک وسیع ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں تمام فریقوں نے تدبر سے کام نہ لیا تو پاکستان ان مسلم ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے، جو سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا خمیازہ بھگت چکے یا بھگت رہے ہیں۔ اب ساری ذمے داری حکومت پر ہے مگر حکومت اب تک غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لبنان اور عراق کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔
بہرکیف پاکستان بدعنوانی کے خلاف لڑ رہا ہے، سرحدوں پر دباؤ ہے۔ خطے کے اہم تنازعات میں پاکستان کو اہمیت مل رہی ہے۔ تنازع کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی کوششوں پر دنیا سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، حکمرانوں کے غیر ضروری اخراجات اور قرضوں نے ملک کی معاشی بنیادیں کمزور کر دی ہیں۔
پوری پاکستانی قوم ان چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ ایسے میں پورے سیاسی نظام کے بخیے ادھیڑنے کی کوشش کرنا، ملک وقوم سے ہمددری نہیں ہے۔ مولانا اور حکومت کو چاہیے کہ مکالمے کو موقع دیں اور ملک کو انتشار کا شکار ہونے سے بچائیں۔ اور ساتھ ہی اپوزیشن رہنماؤں کو بھی یہ حقیقت ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ حکومتی رویے کے کتنے ہی شاکی کیوں نہ ہوں، انھیں اپنے بیان و عمل میں احتیاط کے پہلو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیں۔ دوسری جانب حکومت کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپوزیشن کی تنقید کا جواب الزامات کے ساتھ دے۔ سیاسی مخالفین کے لیے دشمن ملک کے شہری جیسے القابات کا استعمال ایسی روایات قائم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
جن سے مثبت نتائج کی توقع عبث ہے۔ دارالحکومت کے محاصروں سے حکومتیں رخصت کی بھی جا سکتی ہوں تو یہ کوئی صحت مند روایت بہرحال نہیں لہٰذا دونوں جانب سے اب معاملات درست سمت میں آگے بڑھائے جانا چاہئیں۔ حکومت اور اپوزیشن جمہوری نظام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ ان دونوں کو مل کر عوام کی خدمت کرنا ہے اور اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ایک نقطہ نظر یا دوسرے موقف کے اظہار میں وہ شدت اور تندہی نہ آئے جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ احتیاط اور توازن کے تقاضے سب کو ملحوظ رکھنے چاہئیں اور اختلافات کا حل مذاکرات کی میز پر نکالا جانا چاہیے۔