اگست1990میں بے نظیر کی حکومت ختم ہوئی اور نومبر 1990ء ہی میں ن لیگ کی حکومت آئی تو تو ن لیگ نے احتساب کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر مقدمات درج کرائے، 1993ء میں ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی اور محترمہ کی حکومت دوبارہ آئی تو پیپلز پارٹی نے ن لیگ پر مقدمات قائم کیے۔
1996میں پی پی پی کی حکومت ختم ہوئی اور 1997 میں ن لیگ واپس آئی تو ن لیگ نے پی پی پی پر کرپشن کے مقدمات درج کرائے، 1999 میں ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو مشرف نے نیب تشکیل دی اور ن لیگ کے رہنماؤں کو گرفتار کیا اور مقدمات بنائے۔ 2007 میں ق لیگ کا دور ختم ہوا اور 2008 میں مرکز میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں ن لیگ کا دور شروع ہوا تو ق لیگ کے رہنماؤں پر مقدمات بنے۔
2013 میں ن لیگ کی حکومت آئی اور پیپلزپارٹی نے اپنا دور مکمل کیا تو ن لیگ نے "این آر او" کی پاسداری کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پر زیادہ مقدمات تو نہ بنائے مگر بیک اسٹیج نمایاں کھیل کھیلتی رہی۔ پھر گزشتہ سال 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت آئی اور ن لیگ کا دور ختم ہوا تو تحریک انصاف نے بھی مقدمات سازی کی روایت نہ توڑی اورن لیگ پر کرپشن کے خوب مقدمات قائم کیے، افسوس ان 30سالوں میں مقدمات تو ایک جیسے بنتے رہے مگر یہ سب سیاست کی بھینٹ چڑھتے گئے اور یہ تاثر قائم کرکے احتساب کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ مقدمات جعلی اور سیاسی ہیں۔ اور عوام کا لوٹا ہوا پیسہ "سیاست" کی نذر ہوتا رہا۔
الغرض کہا جاتا رہا کہ ان اداروں کی طاقت کا توازن صاحب اقتدار جماعت کے مکینوں کی جانب ہوتا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے بہت سے کالم بھی لکھے کہ یا تو نیب کو ختم کر دیا جائے یا اُس میں سے سیاسی اثر و رسوخ کو کم کرکے صحیح معنوں میں احتساب کیا جائے اور یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک حکومت کے ختم ہونے کے بعد ہی سابقہ حکومت کا احتساب ہو۔
اس سے اداروں اور شخصیات کو بھی خوف رہے گا اور وقت کے حکمران بھی کرپشن کرتے ہوئے الرٹ رہیں گے!جیسے موجودہ حکومت کے ایک وزیر کے ایک دوست کو کئی ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے، اور یہ بات سبھی کو معلوم ہے لیکن نیب، ایف آئی اے، عدالتیں اور پارلیمان خاموش ہے، اب جیسے ہی موجودہ حکومت کا اختتام ہوگا نئی آنے والی حکومت سابقہ حکومت کے خلاف پنڈورا باکس کھول لے گی، اور مقدمہ "سیاسی" ہو جائے گا اور عوام ہاتھ ملتے رہ جائیں گے! میں نے اسی حوالے سے گزشتہ چند ماہ میں 2، 3کالم بھی لکھے۔ ان کالموں کا خلاصہ یہی ہے کہ نیب سیاسی اثرو رسوخ کو ختم کرکے صحیح معنوں میں تفتیش کا آغاز کرے تاکہ ملک میں کرپشن کے خلاف ایک سسٹم کا آغاز ہوسکے۔
مثلاََ نیب کے حوالے سے آخری کالم میں میں نے لکھا تھا کہ "حالیہ نیب کیسز میں جج صاحبان کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ اُن کے ماتحت افسران یا ادارے نے صحیح بندہ پکڑا ہے یا نہیں! کسی کو کیا معلوم کہ کہیں ملزم کو ذاتی عناد اور بغض کی بھینٹ تو نہیں چڑھا یا جا رہا۔ دوسرے ملکوں میں توایسا ہر گزنہیں ہوتا، وہاں تو گرفتاری ڈالنے سے پہلے متعلقہ افسران کے پاس اس قدر ثبوت ہوتے ہیں کہ وہ گرفتاری کا جواز فراہم کر سکے اور اہم بات یہ کہ ہمارے پڑوسی ملکوں میں بھی یہ قانون پاس ہو چکا ہے کہ آپ کسی ملزم کی گرفتاری یا ریڈ کرنے سے پہلے متعلقہ مجسٹریٹ یا علاقہ انچارج کو اعتماد میں لیتے ہوئے کرپشن یا کسی جرم میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کرتے ہیں تب آپ اُس ملزم کی گرفتاری کو درست قرار دے سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے تفتیشی بھی پابند ہو جاتا ہے کہ اُس نے مقررہ مدت میں کیس کو نمٹانا ہے۔
لیکن یہاں مجرمان تو دور کی بات ملزمان ہی بے بس نظر آتے ہیں۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے اُس کے ہی اختیار میں سب کچھ ہوتا ہے۔ یہاں نوازشریف، شہباز شریف، زرداری، حمزہ، رانا ثناء اللہ، خورشید شاہ، جہانگیر ترین، علیم خان الغرض تمام طاقتور شخصیات کے لیے الگ نظام ہے اور غریب کے لیے الگ، لہٰذااگر احتساب کا عمل بہتر انداز میں چلانا ہے اور ملک کا نظام صحیح چلانا ہے تو سرکاری افسران و کاروباری شخصیات کے اندر سے نیب کا خوف ختم کیا جائے تاکہ وہ کھل کر کام کر سکیں۔"
آج بالکل اسی انداز میں موجودہ حکومت نے "نیب"کے اختیارات محدود کرکے پاکستان میں کاروباری سانسیں بحال کی ہیں۔ جو "نیب ترمیمی آرڈیننس 2019"کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا اہم اور خوش آئند فیصلہ ہے۔ کسی بھی ملک میں کاروباری و اقتصادی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں تو معیشت کی لاغری یقینی ہو جاتی ہے اور یہی وہ عوامل تھے جن کے باعث معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کی شبانہ روز کاوشیں جلد ثمربار نہ ہو پائیں۔
اگرمذکورہ آرڈیننس کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کے متعلق عوامی سطح پر پہلا تاثر یہ ہے کہ حکومت نے تاجروں اور بیورو کریٹس کو نیب کے دائرہ کار سے الگ کر کے اپنے اصولوں پر بہت بڑا سمجھوتہ کیا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈی ننس کے مطابق نیب 50کروڑ روپے سے زائد کی بدعنوانی پر کارروائی کر سکے گا، سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی کو کافی محدود کر دیا گیا ہے۔ نیب کو ٹیکس، اسٹاک ایکسچینج، آئی پی اوز سے متعلق معاملات میں حاصل اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ "احتساب بیورو کا کام صرف عوامی عہدہ رکھنے والوں کی جانچ پڑتال کرنا ہے، ملک میں کاروباری مواقعے آسان بنانا حکومتی ترجیحات میں شامل ہے اور حکومت کی معاشی ٹیم کاروباری برادری کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔" پاکستان کے مسائل کا آغاز اسی نکتے سے ہوتا ہے۔ سرکاری افسران کا انتخاب رائج تعلیمی معیاروں کو بروئے کار لاکر سب سے اعلیٰ کارکردگی والے افراد میں سے کیا جاتا ہے۔
ان کی انتظامی تربیت کی جاتی ہے لیکن کوئی ایسا نقص اس نظام تربیت و انتخاب میں موجود ہے کہ کچھ اعلیٰ سرکاری افسران ریاست کے وفادار نہیں ثابت ہوتے۔ حد سے زیادہ سیاسی مداخلت نے انھیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی خاندانوں کا وفادار بنا کر رکھ دیا۔ اس حوالے سے اپوزیشن کو بھی حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ کیوں کہ اپوزیشن والے ایک ہی بات مسلسل کہتے رہے، کہ ہم نے احتساب کے قانون میں تبدیلی نہ کر کے "شدید جھک" ماری ہے۔ اس غلطی کا ازالہ فوراً ہونا چاہیے۔
پارلیمنٹ سپریم ہے۔ پی ٹی آئی حکومت احتسابی قانون میں ترامیم کا بل اسمبلی لے کر آئے… وغیرہ وغیرہ۔ اب اُسی بل کو پچھلی فرمائشیں نظر انداز کر کے پڑھے بغیر مسترد کر دیا گیا حالانکہ احتساب ترمیمی بل کو اسی شکل میں یا بدلی ہوئی شکل میں منظور کرنا بھی پارلیمان کا ہی اختیار ہے۔
بہرکیف ساری دنیا میں کرپشن کے خلاف موثر ادارے موجود ہیں، جس کا سیاسی حکومتوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کے ادارے UNODC سمیت بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں، عمران خان نے بھی یہ بھانپ لیا ہے کہ کرپشن ٹیررازم سے زیادہ خطرناک کینسرہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے انھوں نے ملائیشین ماڈل کا سہارا لیا ہے، اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ ڈٹ جائیں اور جیسے بھی ہو ملک کو معیشت کی پٹڑی پر چڑھائے تاکہ کاروبار پروان چڑھے اور عام آدمی خوشحال ہو! اور رہی بات اپوزیشن کی تو اُس کا کام واویلا کرنا ہے خواہ حقیقت میں دودھ کی نہریں کیوں نہ نکل آئیں، اور پروین شاکر نے شاید انھی تضادات کی پیش گوئی کی تھی۔
کون جانے نئے سال میں توکس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح